ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
بکری کی قربانی میں شرکت کا مسئلہ ( حضرت مولانا منیر اَحمد صاحب، شیخ الحدیث باب العلوم کہروڑ پکا ) بکری کی قربانی صرف ایک آدمی کے طرف سے ہو سکتی ہے یا اِس میں متعدد حصے دار شریک ہو سکتے ہیں ؟ اِس سلسلہ میں اِمام اَعظم اَبو حنیفہ اور دیگر تمام حنفیہ کامذہب یہ ہے کہ ایک بکری صرف ایک آدمی کی طرف سے ہو سکتی ہے اِس میں متعدد لوگ شریک نہیں ہوسکتے چنانچہ بدائع الصنائع ج ٤ ص ٢٠٦ فتاوی عالمگیری ج ٥ ص ٢٠٤ میں لکھا ہے یَجِبُ اَنْ یُّعْلَمَ اَنَّ الشَّاةَ لَا تُجْزِیُٔ اِلاَّ عَنْ وَّاحِدٍ اِس بات کا جاننا ضروری ہے کہ بکری کی قربانی صرف ایک آدمی کے طرف سے ہوسکتی ہے لیکن منکرین ِفقہ یعنی غیر مقلدین کے نزدیک اِس میں متعدد آدمی شریک ہو سکتے ہیں،پھر کمال یہ ہے کہ اِن کے نزدیک اُونٹ میں سات یا دس آدمی، گائے بھینس میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں جبکہ بکری میں ایک گھر کے جتنے اَفراد بھی ہوں وہ سارے شریک ہو سکتے ہیں مثلاً ایک گھر کے سویا سو سے بھی زیادہ اَفراد ہوں اور اُن میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہوتوسب کی طرف سے ایک بکری کافی ہے چنانچہ فتاوی علمائِ حدیث ج ١٣ ص ١١٣ میں لکھا ہے : ''حق یہ ہے کہ گھر کے اَفراد سو سے زیادہ ہوں تو بھی ایک بکری اُن سب کے لیے کافی ہے۔'' منشأ اِختلاف : اِس اِختلاف کی وجہ اور اِس کی بنیاد ایک حدیث کے مفہوم و مطلب میں اِختلاف ہے، وہ حدیث یہ ہے :