ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ(صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٦) اے اللہ ! اِس قربانی کو محمد (ۖ) اور آلِ محمد اور اُمت ِ محمد (ۖ) کی طرف سے قبول فرما۔ نبی پاک ۖ نے یہ قربانی اپنی طرف سے اور آلِ محمد اور اُمت ِمحمد کی طرف سے کی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی والے شرعی حکم کو پورا کرنے اور شرعی حکم کی اَدائیگی کے لحاظ سے یہ قربانی صرف نبی ۖ کی طرف سے تھی لیکن آپ نے اِس قربانی کا ثواب آلِ محمد اور اُمت ِمحمد کو ہدیہ کر کے اُن کو بھی قربانی کے ثواب میں شریک کیا ہے اور غیر مقلدین والا مفہوم لیا جائے تو حدیث کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اِس ایک مینڈھے کی قربانی میں آلِ محمد اور پوری اُمت ِمحمدیہ گائے کے سات حصہ داروں کی طرح حصہ دار تھی اور اِس ایک مینڈے کی قربانی سے پوری اُمت کا قربانی والا حکم اَدا ہو گیا تو سوال یہ ہے کہ اِس کے بعد پھر اُمت کو قربانی کا حکم کیوں ہے ؟ نیز اِس حدیث کو ملحوظ رکھا جائے تو غیر مقلدین کے نظریہ اور اُن کی رائے کا تقاضا یہ ہے کہ ایک بکری کی قربانی پوری اُمت کی طرف سے کافی ہوجانی چاہیے جبکہ وہ اِس کے قائل نہیں ہیں۔ اِس لیے ہم کہتے ہیں کہ اِس حدیث میں اور اِس جیسی دُوسری حدیثوں میں اہلِ بیت، آلِ محمد اور اُمت ِمحمد کی طرف سے قربانی کا مطلب قربانی میں شریک کرنا نہیں جیسا کہ اُونٹ، گائے اور بھینس کی قربانی میں مختلف حصہ دار شریک ہوتے ہیں بلکہ قربانی کے ثواب میں شریک کرنا مراد ہے اور ثواب میں پوری اُمت کو شریک کیا جا سکتا ہے ،اِسی طرح اپنی طرف سے اور اپنے اہلِ بیت کی طرف سے قربانی والی حدیث میں بھی ثواب میں شریک کرنا مراد ہے۔ دلیل نمبر ٢ : حضرت اَبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : مَنْ کَانَ لَہُ سَعَة وَّلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرُبَنَّ مُصَلاَّ نَا (سُنن ابن ماجہ ص ٢٢٦)