ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
پس اگر محمد ۖ اور آلِ محمد ۖ کی طرف سے ذبح کرنے میں سب آلِ محمد کی ایک بکری کی قربانی میں شرکت مراد ہے جس کی وجہ سے آلِ محمد کے سب اَفرادکی قربانی اَدا ہوگئی تو حدیث کے پہلے حصے میں بھی یہی معنی ہوگا کہ آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی میں پوری اُمت کو شریک کیا اور ایک مینڈھے میں پوری اُمت کے شریک ہونے سے اُمت کے کروڑوں اَفراد کی قربانی اَدا ہوگئی۔لہٰذا غیر مقلدین کی رائے اور اُن کے اِختیار کردہ مفہوم کے مطابق ایک بکری پوری اُمت کی طرف سے کافی ہوجائے گی اور ایک بکری میں پوری اُمت کو شریک کرنے سے سب کی قربانی اَدا ہوجائے گی۔ اور اگر حدیث کے اَوّل حصہ میں یہ مفہوم نہیں لیا جا سکتا تو دُوسرے حصہ میں بھی مفہوم نہیں لینا چاہیے کیونکہ حدیث کے دونوں حصوں کا اسلوبِ بیان اورمفہوم ایک ہے جبکہ حنفیہ کا بیان کردہ مفہوم حدیث کے دونوں حصوں میں درست ہے کہ آپ ۖ نے ایک مینڈھے کی قربانی کا ثواب اُمت ِ محمدیہ کے لیے ہبہ کر کے ساری اُمت کو قربانی کے ثواب میں شریک کیا پھر دُوسرے مینڈھے کی قربانی کا ثواب آلِ محمد کے لیے ہبہ کرکے آلِ محمد کو ثواب میں شریک کیا۔ دلیل نمبر٥ : حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ (بعد اَز وفات رسول ۖ) دو مینڈھوں کی قربانی کر رہے ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت علی نے کہا مجھے رسول اللہ ۖ نے وصیت کی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں، سو ایک قربانی میں آپ ۖ کی طرف سے کرتا ہوں ۔(سنن اَبی داؤد ج ٢ ص ٢٩باب الاضحیہ عن المیت) اگر مذکورہ بالا زیرِ بحث حدیث کا مفہوم وہ ہے جو غیر مقلدین نے اپنی رائے سے متعین کر رکھا ہے اور اُس کی بنیاد پر یہ مسئلہ بتاتے ہیں کہ ایک بکری کی قربانی میں گھر کے سب اَفراد شریک ہوسکتے ہیں خواہ وہ سو سے زیادہ ہوں اور اُس ایک بکری کی قربانی سے سب کا قربانی والا حکم پورا ہوجاتا ہے اور وہ