ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
جو شخص قربانی کی اِستطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ اِس حدیث کے ظاہری عموم سے معلوم ہوا کہ جتنے لوگ بھی صاحب ِ اِستطاعت ہیں خواہ وہ ایک گھر کے ہوں یا مختلف گھروں سے تعلق رکھتے ہوں اُن سب پر قربانی لازم ہے اور اُن میں سے ہر ایک پر اَلگ اَلگ قربانی کرنا ضروری ہے جبکہ غیر مقلدین نے جو حدیث کی تشریح کی ہے اُس کے مطابق پورے گھر میں سے ایک آدمی ایک بکری کی قربانی میں سب اَفراد خانہ کو شریک کرنے کی نیت کرلے توسب کے لیے ایک بکری کافی ہے لیکن حدیث کایہ معنی اور یہ مسئلہ مذکورہ بالا دلیل کے خلاف ہے کیونکہ اِس دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ بھی صاحب اِستطاعت ہیں اُن میں سے ہر ایک پر قربانی لازم ہے اور اُن میں سے ہر ایک قربانی کرے اِس لیے غیر مقلدین کی تشریح اور اِس کی بنیاد پربکری کی قربانی میں مختلف لوگوں کی شرکت والا مسئلہ غلط ہے۔ دُوسری بات یہ ہے کہ جب نبی پاک ۖ نے اُمت کی طرف سے ایک مینڈھے کی قربانی کی تو غیر مقلدین کے نظریہ کے مطابق پوری اُمت اِس مینڈھے کی قربانی میں شریک ہوگئی اور جیسے گائے میں سات آدمیوں کے شریک ہونے سے اور غیر مقلدین کے نزدیک گھر کے سو سے زیادہ آدمیوں کے ایک بکری میں شریک ہونے سے سب کی قربانی اَدا ہوجاتی ہے اِسی طرح مینڈھے میں پوری اُمت کی شرکت سے اُمت ِ محمدیہ کے ہر ہر فرد کی قربانی اَدا ہوگئی تو اِتنی سخت وعید سنانے کا کیا مطلب ؟ کہ جو آدمی اِستطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے اور اگر اَحناف کی رائے کے مطابق اِس شرکت سے شرکت فی الثواب مراد ہو تو قربانی کے ثواب میں شریک سے قربانی والا واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا اِس لیے اِس صورت میں صاحب اِستطاعت کے قربانی نہ کرنے پر مذکورہ بالا حدیث میں وعید بر محل ہے۔