ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
اپنی طرف سے کی لیکن قربانی کے ثواب میں سب گھر والوں کو شریک کیا اِس لیے اَحناف کہتے ہیں کہ اگر گھر کے اَفراد متعدد ہوں مگر قربانی اُن میں سے ایک پر واجب ہے تو بکری کی قربانی وہی کرے گا جس پرقربانی واجب ہے اور وہ قربانی اُسی کی جانب سے ہوگی، اِس قربانی میں گھر کا کوئی دُوسرا فرد خواہ قربانی اُس پر واجب ہو یا نہ ہو وہ بکری کی اِس واجب قربانی میں شریک نہیں ہو سکتا، اگر بکری میں شرکت کریں گے تو کسی کی قربانی بھی صحیح نہیں ہوگی، ہاں اَلبتہ قربانی کے ثواب میں گھر کے دُوسرے اَفراد بھی شریک ہوسکتے ہیں جس کی تین صورتیں ہیں : (١) قربانی کرنے والا شخص اپنی قربانی کے ثواب کا دُوسرے اَفراد خانہ کو ہدیہ کر کے اُن کو ثواب میں شریک کرنے کی نیت کر لے اِسی کو اِیصالِ ثواب کہا جاتا ہے ،اِس سے اُس کے اپنے ثواب میں کمی نہ ہوگی بلکہ اُس کو قربانی کا ثواب بھی پورا پورا ملے گا اوردُوسرے اَفراد کو ثواب میں شریک کرنے کا ثواب بھی ملے گا۔ (٢) قربانی کے جانور کی جب سب اَفراد خانہ خدمت کریں گے تو اُن کو اِس خدمت کا ثواب بھی ملے گا تو اِس لحاظ سے بھی وہ قربانی کے ثواب میں شریک ہوگئے۔ (٣) وہ قربانی پر دِل و جان سے راضی ہیں اور قربانی ہوجانے کے بعد گوشت بنانے تقسیم کرنے میں اور غرباء و مساکین، عزیزو اَقارب اور دوست و اَحباب تک پہنچانے میں شریک ہوں گے تو اِس رضائِ قلبی اور اِس تعاون کی وجہ سے بھی سب اَفراد خانہ قربانی کے ثواب میں شریک ہوں گے، بس رسول اللہ ۖ کے اپنے اور اپنے تمام اَفراد خانہ کی طرف سے قربانی کا کرنے کا مطلب ہے ''اُن کو قربانی کے ثواب میں شریک کرنا''چنانچہ علامہ عینی فرماتے ہیں : ھٰذَا لَا یَدُلُّ عَلٰی وُقُوْعِہ مِنَ اثْنَیْنِ بَلْ ھٰذَا ھِبَةُ ثَوَابِھَا (بنایہ شرح ہدایہ ١٤/٣٥٣ و بذل المجھود ٤/ ٧٥) اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قربانی دو آدمیوں کی طرف سے ہوئی ہے بلکہ اِس سے