ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ یَقُوْلُ سَأَلْتُ اَبَا اَیُّوْبَ کَیْفَ کَانَتِ الضَّحَایَا عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ فَقَالَ کَانَ الرَّجُلُ یُضَحِّیْ بِالشَّاةِ عَنْہُ وَعَنْ اَھْلِ بَیْتِہ فَیَاْکُلُوْنَ وَیُطْعِمُوْنَ حَتّٰی تَبَاھَی النَّاسُ فَصَارَتْ کَمَا تَرٰی (جامع ترمذی ج ١ص ٢٧٦) عطاء بن یسار کہتے ہیں میں نے حضرت اَبو اَیوب اَنصاری سے پوچھا رسول اللہ ۖ کے زمانے میں قربانی کیسے ہوتی تھی ؟ حضرت اَبو اَیوب اَنصاری نے جواب دیا کہ ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے سب گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا بس وہ خود کھاتے اور دُوسروں کو کھلاتے حتی کہ لوگوں نے ایک دُوسرے پر فخر کرنا شروع کردیا سو صورتِ حال وہ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں (یعنی اَب اُنہوں نے دُوسروں پر بر تری ظاہر کرنے کے لیے اور بطور ِ فخر کے ایک سے زیادہ بکریوں کی قربانی شروع کردی ہے)۔ اِس حدیث کا مفہوم و مطلب کیا ہے ؟ اِس سلسلہ میں ایک رائے غیر مقلدین کی ہے دُوسری رائے اِمام اَعظم اور دیگر اَحناف حضرات کی ہے۔ غیر مقلدین کی رائے کے مطابق اِس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی پاک ۖ نے اپنی بکری کی قربانی میں اپنے گھر کے تمام لوگوں کو شریک کیا اور وہ بکری سب کی طرف سے کافی ہوگئی۔ اپنے اِس فہمیدہ مفہوم پر بنیاد رکھ کر اُنہوں نے مسئلہ یہ بتایا کہ اگر گھر کے اَفراد سو سے بھی زیادہ ہوں تو اُن سب کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کافی ہے جیسا کہ ایک گائے سات آدمیوں کے طرف سے کافی ہوتی ہے اور سات آدمی ایک گائے میں شریک ہوسکتے ہیں اور اِس سے ساتوں کا واجب اَدا ہوجاتاہے اِسی طرح بکری میں بھی گھر کے تمام اَفراد خواہ جتنے بھی ہوں سب شریک ہوسکتے ہیں اور اِس ایک بکری سے سب کا واجب اَدا ہوجاتا ہے۔ جبکہ حدیث ِبالا کے مفہوم کے بارے میں حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ نبی پاک ۖ نے قربانی