ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
گذشتہ چند سالوں میں حرمین شریفین کے اَطراف میں جدید ترین مغربی اَنداز کے تجارتی مراکز اِس تیزی سے تعمیر ہوئے ہیں کہ وہاں جاکر آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں، بڑے بڑے شاپنگ مال، سپر اسٹور اور بین الاقوامی درجہ کے ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ وپیراستہ فائیو اسٹار ہوٹلوں کی تعمیر رُکنے کا نام نہیں لے رہی، اِن جگہوں میں جانے سے عبادت اور رُوحانیت کے جذبات قدرتی طور پر مضمحل ہوجاتے ہیں اور مسجد ِحرام اور مسجد نبوی میں رہ کر اَنابت اِلی اللہ، محبتِ خداوندی اور رقتِ قلبی کے جو اَثرات دل پر قائم ہوتے ہیں، وہ حرم سے نکل کر بازاروں کی چمک دمک میں گم ہوجاتے ہیں، آج کل حرم کے اِرد گرد تفریح طبع اور دل بہلانے کے اِتنے اَسباب فراہم کردیے گئے ہیں کہ وہ جگہیں نعوذ باللہ تفریح گاہوں کا منظر پیش کرتی ہیں، اِن ہی آسائشوں وغیرہ کو پیش نظر رکھ کر پوری دُنیا سے نہایت مہنگے اور پرتعیش سفر حج کے پیکج دیے جانے لگے ہیں اور بین الاقوامی درجہ کی ٹور کمپنیاں اِس نفع بخش کاروبار میں دخیل ہوگئی ہیں، جو نہ صرف مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے دورانِ قیام تعیش کے تمام اَسباب فراہم کرنے کی ضمانت دیتی ہیں بلکہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں بھی اُن کے اِنتظامات بہت گراں قدر ہوتے ہیں۔ اِس سال ہم لوگ صبح نو بجے کے قریب عرفات کے میدان میں داخل ہوئے تو بعض ممالک کی سیاحتی کمپنیوں کے کیمپوں کو دیکھ کر یہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ عرفات کا میدان ہے، قالین بچھے ہوئے، جابجا کرسیاں اور صوفے لگے ہوئے، ذائقہ دار مطعومات ومشروبات کا وافر مقدار میں اِنتظام، بھنے ہوئے کبابوں کی خوشبو سے فضا معطر اور اِسی ماحول میں گپ شپ کرتے اِحرام باندھے لوگ، اِسی طرح کے مناظر مہنگے اور پُر تکلف سیاحتی اِداروں کے خیمہ جات میں منیٰ میںبھی نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں وہ طبعی یکسوئی اور دلوں کی نرمی مشکل ہی سے پیدا ہوسکتی ہے جو ایسے مواقع پرمطلوب ہے لیکن جن لوگوں کی نظر میں عبادت سے زیادہ سیر وسیاحت ہی مقصود ہو اُنہیں اِس کی فکر کہاں ؟ اِسی طرح متوسط طبقہ کے جو تاجر حج کو جاتے ہیں اُن کی فکر بھی عبادت سے زیادہ اپنی تجارت کی طرف رہتی ہے، حرمین شریفین میں نماز باجماعت وغیرہ کا اِتنا اہتمام نہیں ہوتا جتنا اپنے تجارتی اُمور