ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2015 |
اكستان |
|
ہواکہ اُن کے کان اور دِل بند ہیں باہر سے کوئی چیز (وسوسہ) اُن میں داخل نہیں ہوسکتی اور یہ اللہ کے اُن مخلص بندوں میں داخل ہیں جن پر شیطان کا کوئی داؤ نہیں چلتا لہٰذا شیطان بہت پریشان ہوا اور اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور تمام غرور خاک میں ملا کر بولا : اے اللہ ! تیرا بندہ اَیوب تیری عبادت کرتا ہے، تسبیح بیان کرتاہے اپنے دِل و زبان کو تیرے ذکر و تسبیح میں مشغول رکھتاہے لیکن یہ تمام عبادات اُن نعمتوں کے بدلے میں ہیںجو تو نے اُسے عطاکی ہیں، وہ تیری رضا کے لیے عبادت نہیں کرتا لہٰذا اے اللہ ! اُسے اِن تمام نعمتوں سے محروم کر پھر دیکھ لو وہ تیری اِطاعت سے کیسے منہ پھیرتاہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے شیطان لعین ! اَیوب میرا مخلص بندہ ہے وہ عبادت اور ذکر حق سمجھ کر کرتا ہے اُس کی عبادت و ذکر دُنیا کی محبت سے خالی اور حرص و لالچ سے دُور ہے، اَیوب اِیمانی اِعتبار سے روشن چراغ کی طرح ہے اور وہ صبرو یقین میں اَعلیٰ مقام رکھتا ہے لہٰذا میں اَیوب کا مال و دولت تمہارے لیے حلال کرتا ہوں تم جو کرنا چاہتے ہو کر لو پھر دیکھنا کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟ شیطان لعین یہ اِختیار لے کر وہاں سے چلا اور اپنے چیلوں کو مشاورت کے لیے جمع کیا، اُنہوں نے آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ حضرت اَیوب علیہ السلام کا تمام مال و دولت ختم کر دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ، مال و دولت ہلاک کرنے کے بعد شیطان لعین ایک بوڑھے حکیم کی صورت میں حضرت اَیوب علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آگ نے تمہارے مال و دولت کو تباہ کردیا اور تمہارا رب تم سے جدا ہو گیا لیکن تم پھر بھی اپنی زبان سے اُس کا ذکر کرتے ہو، شیطان کا خیال تھا کہ یہ سن کر حضرت اَیوب علیہ السلام کا اِیمان ڈگمگائے گا لیکن حضرت اَیوب علیہ السلام مضبوط اِیمان والے اور صاحب ِ یقین محکم تھے کہ اللہ اُن سے جدا نہیں ہوا، لہٰذا اُنہوں نے کہا کہ جس دولت کو آگ نے تباہ کیا ہے وہ دولت اللہ کی اَمانت تھی اور اللہ وہ اَمانت واپس لے چکاہے لہٰذا میں ہر حال میں اللہ کا شکر اَداکرتا رہوں گا چاہے وہ دے یا لے، راضی ہو یا ناراض، نفع دے یا نقصان، وہ تمام اَشیاء کامالک ہے جس کو چاہے بادشاہت دے جس کو چاہے معزول کردے، جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے ذلت دے، پھر حضرت اَیوب علیہ السلام سجدہ میں گر گئے اور شیطان لعین شر مندہ ہو کر واپس پلٹا اور ناکام ہو کر واپس