]٦٥[ (٢) او کان یجد الماء الا انہ مریض فخاف ان استعمل الماء اشتد مرضہ او خاف الجنب ان اغتسل بالماء یقتلہ البرد او یمرضہ فانہ یتیمم بالصعید]٦٦[(٣) والتیمم
]٦٥[(٢) اگر پانی تو پاتا ہومگر یہ کہ بیمار ہو پس خوف ہو کہ اگر پانی استعمال کرے گا تو اس کا مرض بڑھ جائے گا۔یا جنبی کو خوف ہو کہ اگر غسل کرے گا تو سردی اس کو مار ڈالے گی یا اس کو بیمار کر دے گی تو وہ پاک مٹی سے تیمم کر سکتا ہے۔
وجہ (١) شریعت انسان کو مشقت شدیدہ میں مبتلا کرنا نہیں چاہتی اس لئے اگر بیماری بڑھ جانے کا خوف ہو یا بیمار ہو جانے کا ظن غالب ہو تو تیمم کر سکتا ہے(٢) آیت لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا (الف) (آیت ٢٨٦ سورة البقرة)(٣) حدیث میں ہے کہ بیمار ہونے کا ظن غالب ہوتو تیمم کر سکتا ہے عمر ابن العاص یذکر ان عمر ابن العاص اجنب فی لیلة باردة فتیمم وتلا ولاتقلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما فذکرذلک للنبی ۖ فلم یعنف (ب) (بخاری شریف ، باب اذا خاف الجنب علی نفسہ المرض او الموت او خاف العطش یتیمم، ج اول، ص ٤٩،نمبر٣٤٥)معلوم ہوا کہ سردی سے مرض بڑھنے کا خوف ہو یا بیمار ہونے کا خوف ہو تو تیمم کر سکتا ہے۔
فائدہ امام شافعی فرماتے ہیں جان جانے کاخوف ہو یا عضو تلف ہونے کا خوف ہو تب تیمم کر سکتا ہے اس سے پہلے نہیں۔
لغت الصعید : پاک مٹی۔
]٦٦[(٣) تیمم کے دو ضربے ہیں۔ ایک کو چہرے پر ملے اور دوسرے کو دونوں ہاتھوں پیر کہنیوں سمیت۔
تشریح تیمم کے لئے دو ضربے ہونگے۔ایک ضربہ زمین پر مار کر چہرے پر ملیگا اور دوسرا زمین پر مار کر دونوں ہاتھوں پر ملیگا کہنیوں سمیت وجہ حدیث میں ہے عن عمار بن یاسر حین تیمموا مع رسول اللہ ۖ فامر المسلمین فضربوا باکفھم التراب ولم یقبضوا من التراب شیئا فمسحوا بوجوھھم مسحة واحدة ثم عادوا فضربوا باکفھم الصعید مرة اخری فمسحوا بایدیھم (ج) (ابن ماجہ شریف، باب فی التیمم ضربتین ،ص ٨١،نمبر ٥٧١ ابوداؤد شریف ،باب التیمم ص ٥١ نمبر ٣١٨)عن ابن عمر عن النبی ۖ قال التیمم ضربتان صربة للوجہ و ضربة للیدین الی المرفقین (د) ّدار قطنی ج اول ص ١٨٨ نمبر ٦٧٤)
نوٹ تیمم وضو کے قائم مقام ہے اس لئے پورے چہرے کو اور پورے ہاتھ کو کہنیوں سمیت گھیرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ دار قطنی کی حدیث سے معلوم ہوا۔
فائدہ صحاح ستہ کی کتابوں میں ایک ضربہ کا تذکرہ ہے اس لئے امام احمد اور اسحاق کی رائے ہے کہ ایک ضربہ سے چہرہ اور ہاتھ ملنا کافی ہے۔البتہ جمہور ائمہ کا مسلک یہی ہے کہ دو صربے ضروری ہیں۔امام احمد کی دلیل یہ حدیث ہے عن عمار بن یاسر قال سألت النبی
حاشیہ : (الف) اللہ کسی نفس کو مکلف نہیں بناتے مگر اس کی وسعت کے مطابق(ب) عمر ابن عاص سردی کی رات میں جنبی ہو گئے تو ولا تقتلوا انفسکم الخ آیت پڑھی۔اس کا تذکرہ حضورۖ کے پاس کیا گیا تو آپۖ نے تنبیہ نہیں کی(ج) عمار بن یاسر نے حضور کے ساتھ تیمم کیا تو مسلمانوں کو حکم دیا تو انہوں نے اپنی ہتھیلی کو مٹی پر مارا اور مٹی سے کچھ بھی نہیں لیا پھر اپنے چہرے پر ایک مرتبہ ملا، پھر دو بارہ اپنی ہتھیلیوں کو مٹی پر مارا اور اپنے ہاتھوں پر ملا (د) تیمم دو ضربے ہیں ۔ ایک ضربہ چہرے کے لئے اور ایک ضربہ ہات کے لئے کہنیوں سمیت۔