]٧٩٩[(٣) ولا یجوز فی الھدی مقطوع الاذن ولا اکثر ھا ولا مقطوع الذنب ولا مقطوع الید ولا الرجل ولا ذاھبة العین ولا العفجاء ولا العرجاء التی لا تمشی الی
]٧٩٩[(٣)نہیں جائز ہے ہدی میں کان مکمل کٹا ہوا اور ن اس کا اکثر کٹا ہوااور نہ دم کٹی ہوئی اور نہ ہاتھ کٹا ہوااور نہ پاؤں کٹا ہوا اور نہ آنکھ گئی ہوئی اور نہ دبلا اور نہ لنگڑا جو مذبح تک نہ جا سکتا ہو۔
وجہ (١) ہدی اللہ کے بارگاہ میں پیش ہوتی ہے اس لئے اچھا جانور ہو ،عیب دار جانور انسان بھی پسند نہیں کرتا تو اللہ کی بارگاہ میں کیسے پیش کیا جائے ؟ (٢) حدیث میں ہے سألت براء بن عازب مالا یجوز فی الاضاحی فقال قام فینا رسول اللہ ... فقال اربع لاتجوز فی الاضاحی العوراء بین عورھا والمریضة بین مرضھا والعرجاء بین ظلعھا والکسیرة التی لا تنقی (الف) (ابو داؤد شریف ، باب ما یکرہ من الضحایا ج ثانی ص٣١ کتاب الضحایا نمبر ٢٨٠٢ ترمذی شریف ، باب مالایجوز من الاضاحی ص ٣٦٤ نمبر ١٤٩٧) دوسری حدیث میں ہے قال اتیت عتبة بن عبد سلمی ... انما نھی رسول اللہ عن المصفرة والمستأصلة والبخقاء والمشیعة والکسرائ، فالمصفرة التی تستاصل اذنھا حتی یبدو سماخھا ،والمستأصلة التی استؤصل قرنھا من اصلہ ، والبخقاء التی تبخق عینھا المشیعة التی لا تتبع الغنم عجفا و ضعفا والکسراء الکسیرة(ب)( نمبر ٢٨٠٣) (٣) تیسری حدیث میں ہے عن علی قال امرنا رسول اللہ ان نستشرف العین والاذن ولا نضحی بعوراء ولا مقابلة ولا مدابرة ولا خرقاء ولا شرقاء قال زھیر فقلت لابی اسحاق اذکر عضباء وقال لا قلت فما المقابلة ؟ قال یقطع طرف الاذن فقلت فما المدابرة ؟ قال یقطع من مؤخر الاذن قلت فما الشرقاء ؟ قال تشق الاذن قلت فما الخرقاء ؟ قال تخرق اذنھا للسمة(ج) (ابو داأد شریف ، باب ما یکرہ من الضحایا ج ثانی ص ٣٢٣١ کتاب الضحایا نمبر ٢٨٠٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کان کٹا ہوا،دم کٹی ہوئی،ہاتھ کٹا ہوا۔پاؤں کٹا ہوا ،نابینا،لنگڑا اور عضو کٹا ہوا یا خراب ہو تو قربانی اور ہدی میں نہیں چلے گا۔اور تہائی سے کم ہو تو وہ چل جائے گا۔
نوٹ حدیث کے ترجمہ میں عیب کا ترجمہ بھی آگیا ہے۔
حاشیہ : (الف) ہمارے درمیان حضور کھڑے ہوئے ...فرمایا چار جانور قربانی میں جائز نہیں (١) کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو (٢) بیمار جس کا مرض ظاہر ہو (٣) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو (٤) اور اتنا بوڑھا کہ ہڈی ظاہر ہوتی ہو(ب) حضورۖ نے بالکل کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی کرنے سے منع فرمایا(٢) اور جڑ سے سینگ نکلا ہوا (٣) اندھا (٤) دبلا (٥) کوئی عضو ٹوٹا ہوا جانور قربانی سے منع فرمایا ،مصفرہ وہ ہے جس کا کان جڑ سے نکلا ہوا ہویہاں تک کہ دماغ نظر آتا ہو،اور مستاصلہ وہ ہے جسکا سینگ جڑ سے نکلا ہوا ہو، اور نجقاء وہ ہے جس کی آنکھ اندھی ہو،اور مشیعہ وہ ہے جو دبلے پن کی وجہ سے بکریوں کے پیچھے نہ جا سکتا ہو،اور کسراء وہ ہے جس کا کوئی عضو ٹوٹا ہوا ہو (ج) ہم کو حضورۖنے حکم دیا کہ آنکھ کو اور کان کو جھانک کر دیکھ لیں اور کانا جانور ذبح نہ کریں۔ اور نہ کنارے پر کٹے ہوئے کان والے کو ،اور نہ پیچھے کٹے ہوئے کان والے کو، اور نہ پھاڑے ہوئے کان والے کو، اور نہ علامت کے لئے شگاف ڈالے ہوئے کان والے کو ۔ زہیر نے ابو اسحاق سے پوچھا کیا عضباء کا ذکر کیا ہے؟ فرمایا نہیں۔ میں نے کہا مقابلہ کیا ہے ؟ فرمایا کان کا کنارہ کٹا ہوا۔ میں نے کہا مدابرہ کیا ہے؟ فرمایا کان کا پچھلا حصہ کٹا ہوا۔ میں نے پوچھا شرقاء کیا ہے ؟ فرمایا کان پھٹا ہوا ہو۔میں نے کہا خرقاء کیا ہے ؟ فرمایا علامت کے لئے کان پھاڑا ہو۔