]٧٩٦[(٦) وھی الاحرام والطواف والسعی۔
العمرة واجبة کوجوب الحج من الستطاع الیہ سبیلا (الف) (دار قطنی ، کتاب الحج ج ثانی ص ٢٥٠ نمبر ٢٦٩٤) اس حدیث اور اثر سے معلوم ہوا کہ عمرہ واجب ہے۔
نوٹ لیکن دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عمرہ سنت ہے اور پورے سال میں جائز ہے۔
]٧٩٦[(٦)عمرہ کا احرام باندھنا ، طواف کرنا اور سعی کرنا ہے۔
تشریح تین ارکان کے مجموعے کا نام عمرہ ہے (١) احرام باندھے (٢) بیت اللہ کا سات شوط طواف کرے (٣) صفا اور مروہ کے درمیان سات مرتبہ سعی کرے۔اسی تین چیز کے مجموعے کا نام عمرہ ہے۔
وجہ حدیث میں ہے عن عائشة زوج النبی ۖ قالت خرجنا مع النبی فی حجة الوداع ... قالت فطاف الذین کانواھلوا بالعمرة بالبیت وبین الصفا والمروة ثم حلوا (ب) (بخاری شریف ، باب کیف تھل الحائض والنفساء ص ٢١١ نمبر ١٥٥٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمرہ میں احرام باندھے اور طواف بیت اللہ کرے اور صفا اور مروہ کی سعی کرے۔دوسری حدیث میں ہے حدثنا ابو نعیم حدثنا ابو شھاب ... فقال لھم احلوا من احرامکم بطواف البیت وبین الصفا والمروة و قصروا ثم اقیموا حلالا (ج) (بخاری شریف ، باب التمتع والاقران والافراد بالحج ص ٢١٣ نمبر ١٥٦٨) اس حدیث میں بھی ہے کہ عمرہ میں طواف اور سعی کرکے حلال ہو جائے یہی اعمال عمرہ ہیں۔
حاشیہ : (الف) حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا عمرہ حج کی طرح واجب ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو(ب) حضرت عائشہ فرماتی ہیں ہم حضور کے ساتھ حجة الوداع میں نکلے ... فرمایا ان لوگوں نے بیت اللہ کا طواف کیا جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا،اور صفا مروہ کی سعی کی ،پھرحلال ہو گئے (ج) ابو شہاب نے حدیث بیان کی ...لوگوں سے کہا تمہارے عمرے کے احرام سے حلال ہو جاؤ۔بیت اللہ کا طواف کرکے اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرکے اورسرکا قصر کرا لو پھر حلال ہو کر ٹھہرے رہو۔