اذا تحلل علیہ حجة و عمرة]٧٨٤[ (٨) وعلی المحصر بالعمرة القضائ۔
یفعل من فاتہ الحج ج خامس ص ٢٨٤، نمبر٩٨٢٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج فوت ہو جائے تو عمرہ کرکے حلال ہو جائے اور آئندہ سال حج کرے ۔
فائدہ امام مالک کے نزدیک حج فرض ہو تو اس کی قضا ہے ورنہ نہیں۔ان کی دلیل یہ اثر ہے عن ابن عباس انما البدل علی من نقص حجہ بالتلذذ فاما من حبسہ عذر او غیر ذلک فانہ یحل ولا یرجع واذا کان معہ ھدی وھو محصر نحرہ ان کان لا یستطیع ان یبعث بہ،وان استطاع ان یبعث بہ لم یحل حتی یبلغ الھدی محلہ، وقال مالک وغیرہ ینحرہ ہدیہ ویحلق فی ای موضع کان ولا قضاء علیہ لان النبی ۖ واصحابہ بالحدیبیة نحروا وحلقواوحلوا من شیء قبل الطواف وقبل ان یصل الھدی الی البیت ثم لم یذکر ان النبی ۖ امر احدا ان یقضوا شیئا ولا یعودوا لہ والحدیبیة خارج من الحرم (الف) (بخاری شریف ، باب من قال لیس علی المحصر بدل ص ٢٤٣ نمبر ١٨١٣) اس اثر میں ہے کہ حضورۖ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ چھوڑا اور بعد میں کسی کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیا۔اور کئی صحابہ ایسے تھے جو اگلے سال عمرہ کے لئے نہیں آسکے ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ قضا واجب نہیں تھی۔اس لئے انہوں نے قضا نہیں کی ۔
نوٹ حج فرض میں احصار ہو جائے تو بالاتفاق اس کی قضا لازم ہے۔
]٧٨٤[(٨)اور عمرہ کے محصر پر قضا لازم ہے۔
وجہ مسئلہ نمبر ٧ میں حضرت عائشہ کی حدیث گزری جس میں تھا عن عائشة زوج النبی ۖ قالت خرجنا مع النبی ۖ فی حجة الوداع ... ارسلنی النبی ۖ مع عبد الرحمن بن ابی بکر الی التنعیم فاعتمرت فقال ھذہ مکان عمرتک (ب) (بخاری شریف ، باب کیف تفعل الحائض والنفساء ص ٢١١ نمبر ١٥٥٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمرہ چھوٹ جائے تو عمرہ چاہے نفل ہے لیکن احرام باندھنے کے بعد واجب ہوتا ہے۔اس لئے اس کی قضا کرنی ہوگی۔ کیونکہ حضرت عائشہ نے عمرہ چھوڑا تھا تو آپۖ نے عمرہ کروایا اور فرمایا یہ اس عمرے کے بدلے میں ہے۔
فائدہ امام مالک کا مسلک اور اس کے دلائل اوپر مسئلہ نمبر ٧ میں گزر گئے کہ حج فرض کے علاوہ کی قضا نہیں ہے۔(بخاری شریف نمبر ١٨١٣)
حاشیہ : (پچھلے صفحہ سے آگے ) فوت ہوگیا ۔اس لئے عمرہ کرکے حلال ہو جائے اور اس پر اگلے سال حج ہے(الف) حضرت ابن عباس نے فرمایا بدل اس پر ہے جس نے لذت اٹھانے لئے حج توڑا بہر حال جس کو عذر نے روک لیا یا اس کے علاوہ ہوا وہ حلال ہو جائے اور واپس نہ لوٹے ۔اور اگر اس کے ساتھ ہدی ہو اور محصر ہو جائے تو اس کو نحر کردے اگر اس کو حرم تک نہ بھیج سکتا ہو ۔اور اگر بھیج سکتا ہو تو نہ حلال ہو یہاں تک کہ ہدی اپنے محل تک پہنچ جائے۔اور حضرت مالک اور ان کے علاوہ نے فرمایا ہدی کو نحر کرے اور جہاں چاہے حلق کرائے اور اس پر قضا نہیں ہے۔ اس لئے کہ حضورۖ اور ان کے صحابہ نے حدیبیہ میں نحر کیا اور حلق کرایا اور طواف سے پہلے ہر چیز سے حلال ہو گئے ۔اور بیت اللہ تک ہدی پہنچنے سے پہلے حلال ہو گئے ۔پھر کسی نے ذکر نہیں کیا کہ حضورۖ نے کسی کو کچھ قضا کرنے کا حکم دیا ہو اور نہ قضا کے لئے واپس لوٹے ۔اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے(الف)مجھے حضورۖ نے عبد الرحمن کے ساتھ تنعیم تک بھیجا ۔پس میں نے عمرہ کیا ،پس آپۖ نے فرمایا یہ تیرے عمرہ کی جگہ پر ہے۔