(١)قال اللہ تعالی یا یھاالذین آمنوا اذا قمتم الی الصلوة فاغسلوا وجوھکم وایدیَکم الی المرافق وامسحوا برء وسکم وارجلکم الی الکعبین ۔
ہو(٢) مال کی طہارة جیسے مال کی زکوة دینا (٣) بدن کی طہارة جیسے وضو کرنا ، غسل کرنا۔ کپڑے کی طھارة جیسے کپڑے کو پاک کرنا۔
(١) اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ اے ایمان والو جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے منہ دھو لو اور ہاتھ کو کہنیوں سمیت اور اپنے سر پر مسح کر لو۔ اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو
وجہ آیت کو شروع میں لکھنے کی وجہ یہ ہیں(الف) برکت لئے ہے (٢) وضوء میں کتنے اعضاء دھوئے جائیںگے اس کا تذکرہ ہے۔ تو گویا کہ آیت اعضاء وضوء دھونے کی دلیل ہو گئی۔ آیت میں تین اعضاء دھونے اور ایک عضو کے مسح کرنے کا ذکر ہے(١) چہرہ دھویا جائیگا (٢) دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے جائیںگے (٣) پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے جائیںگے اور سر پر مسح کیا جائے گا۔ ہر ایک عضو کی مقدار اور ان کی دلیلیں آگے آئیںگی ۔
لغت اذا قمتم الی الصلوة جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اعضاء دھوؤ۔ نماز میں کھڑے ہونے کے وقت وضوء نہیں کرتے بلکہ اس سے کچھ دیر پہلے وضوء کرتے ہیں۔ اس لئے آیت سے پہلے ایک قید بڑھانی ہوگی یعنی اذا اردتم القیام الی الصلوة۔ تم نماز میں کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو وضوء کر لو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر نماز پڑھتے وقت پہلے سے وضوء موجود ہو تو وضوء کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے ایک قید اور بھی بڑھانا ہوگی اذا قمتم الی الصلوة وانتم محدثون یعنی تم نماز کے لئے کھڑے ہو اس حال میں کہ تم محدث ہو تو وضوء کرلو اور محدث نہ ہو تو وضوء کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ طہارت کے با وجود وضوء کرنا مستحب ہے۔
فاغسلوا : غسل غ کے فتحہ کے ساتھ کسی چیز پر پانی بہا کر میل کچیل دور کرنا،کسی چیز کو دھونا اور غسل غ کے ضمہ کے ساتھ غسل کرنا، پورے بدن کو دھونا۔ وجوہ : وجہ کی جمع ہے، چہرہ۔سر کے بال اگنے سے لیکر تھوڑی کے نیچے تک اور چوڑائی میں کان کے دونوں نرمے تک کو چہرہ کہتے ہیں۔ وجہ : مواجہت سے مشتق ہے۔ اور آدمی کسی کے سامنے آئے تو چہرے کا اتنا حصہ آنکھوں کے سامنے آتا ہے اس لئے اتنے حصے کو وجہ کہتے ہیں۔ مرافق : مرفقة کی جمع ہے، کہنی۔ امسحوا : مسح سے مشتق ہے پونچھنا۔ بھیگے ہوئے ہاتھ کو کسی عضوپر پھیرنا۔ وارجلکم : رجل سے مشتق ہے پاؤں۔ ارجلکم پر فتحہ ہوگا اور عطف وجوھکم پر ہوگا ۔اور مطلب یہ ہوگا کہ چہرے کو دھوؤ اور پاؤں کو بھی دھوؤ۔ حضرت نافع ، ابن عامر ، کسائی ، یعقوب اور امام حفص کی قرأت میں یہی ہے۔ اور قرآن کریم کے عام نسخوں میں لام پر فتحہ والی قرأت ہے۔ جمہور کا مسلک بھی یہی ہے کہ پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھونا ضروری ہے ورنہ وضوء نہیں ہوگا۔ ان کے دلائل یہ ہیں(١) قرآن نے وارجلکم الی الکعبین کہا ہے۔ اگر مسح کرنا فرض ہوتا تو الی الکعبین کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ ٹخنوں تک کرو۔بلکہ رء وسکم کی طرح مطلق بیان کرتے۔ کعبین کی قید لگانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ٹخنوں تک دھونا فرض ہے(٢) حضرت ابی وقاص سے روایت ہے کہ انی سمعت رسول اللہ ۖ انہ یقول ویل للاعقاب من النار (الف) (مسلم شریف،باب وجوب غسل الرجلین بکمالھا، ص ١٢٤ نمبر ٢٤٠اور بخاری شریف ، باب غسل
حاشیہ : (الف) آپ فرمایا کرتے تھے ایڑی کے لئے آگ سے ہلاکت ہے۔