اجزأتہ النیة ما بینہ وبین الزوال ]٥٥٣[(٣) والضرب الثانی ما یثبت فی الذمة کقضاء رمضان والنذر المطلق والکفارات فلا یجوز صومہ الا بنیة من اللیل وکذلک صوم الظھار۔]٥٥٤[ (٤) والنفل کلہ یجوز بنیة قبل الزوال۔
ت النذر المعین : کوئی آدمی نذر مانے کہ مثلا جمعہ کے دن روزہ رکھوں گا تو چونکہ جمعہ کا دن روزہ رکھنے کے لئے متعین کیا اس لئے یہ نذر معین ہوئی، نذر واجب ہونے کی دلیل یہ آیت ہے ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم (الف) (آیت ٢٩ سورة الحج٢٢) اس آیت سے معلوم ہوا کہ نذر مانی ہو تو اس کو پوری کرنا چاہئے۔روزہ متعین ہے ،دن کو بھی نیت کر لے تو جائز ہو جائے گا۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے عن حفصة زوج النبی ۖ ان رسول اللہ قال من لم یجمع الصیام قبل الفجر فلا صیام لہ (ب) (ابو داؤد شریف ، باب فی النیة فی الصوم ص ٣٤٠ نمبر ٢٤٥٤ ترمذی شریف ، باب ماجاء لا صیام لمن لم یعزم من اللیل ص ١٤٥ نمبر ٧٣٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات سے روزے کی نیت کرنی چاہئے (٢) دوسری حدیث سے معلوم ہوا کہ متعین روزہ اور نفل روزہ کی نیت زوال سے پہلے بھی کرے گا تو روزہ درست ہو جائے گا عن سلمة بن اکوع ان النبی ۖ بعث رجلا ینادی فی الناس یوم عاشوراء ان من اکل فلیتم او فلیصم ومن لم یأکل فلا یأکل (ج) (بخاری شریف ، باب اذا نوی بالنھار صوما ( ٢٥٧ نمبر ١٩٢٤ ابو داؤد شریف ، باب فی الرخصة فیہ (ای فی النیة) ص ٣٤٠ نمبر ٢٤٥٥)اس حدیث میں جس نے دوپہر تک کھایا نہیں تھا اس کو نیت کرکے روزہ رکھنے کا حکم دیا جس سے معلوم ہوا کہ دوپہر سے پہلے روزہ کی نیت کر سکتا ہے۔ حدیث میں یہ حکم سنت روزے کا ہے لیکن متعین روزے کو بھی اسی پر قیاس کیا جائے گا۔
]٥٥٣[(٣)دوسری قسم وہ روزہ ہے جو ذمہ میں ثابت ہو جیسے رمضان کی قضا اور نذر مطلق اور کفارات کے روزے،پس جائز نہیں ہے اس کے روزے مگر رات کی نیت کے ساتھ، اور ایسے ہی کفارۂ ظہار کے روزے۔
تشریح وہ روزے جو وقت کے ساتھ متعین نہیں ہیں اور نفل بھی نہیں ہیں ان روزوں کی نیت رات سے ہی کرنی ہوگی، تب روزے درست ہونگے۔
وجہ چونکہ یہ روزے مطلق وقت کے ساتھ ہیں ،کسی وقت کے ساتھ متعین نہیں ہے اس لئے رات ہی سے نیت کرکے واجب روزہ متیعن کرنا ہوگا۔اور رات ہی سے نیت کرنی ہوگی۔
وجہ اوپر ابو داؤد کی حدیث ہے۔ان رسول اللہ ۖ قال من لم یجمع الصیام قبل الفجر فلا صیام لہ (ابو داؤد شریف،نمبر ٢٤٥٤ترمذی شریف،نمبر ٧٣٠)
]٥٥٤[(٤) اور نفل کل کے کل جائز ہے زوال کے پہلے کی نیت سے۔
حاشیہ : (الف) پھر اپنی پراگندگی کو دور کرو اور اپنی نذر پوری کرو (ب) آپۖ نے فرمایا جو آدمی فجر سے پہلے روزے کا پختہ ارادہ نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوا(ج) آپۖ نے ایک آدمی کو عاشورہ کے دن لوگوں میں اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ جس نے کھانا کھایاوہ روزہ پورا کرے یا روزہ رکھے۔فرمایااور جس نے کھانا نہیں کھایا تو اب نہ کھائے یعنی روزہ رکھے۔