]٥٤٩[ (١٣) والمستحب ان یخرج الناس الفطرة یوم الفطر قبل الخروج الی المصلی فان قدموھا قبل یوم الفطر جاز ]٥٥٠[(١٤) وان اخروھا عن یوم الفطر لم تسقط وکان علیھم اخراجھا۔
]٥٤٩[(١٣) اور مستحب ہے کہ آدمی صدقة الفطر عید کے دن عیدگاہ کی طرف نکلنے سے پہلے نکالے۔پس اگر عید الفطر کے دن سے پہلے نکالے تو جائز ہے۔
وجہ (١) عن ابن عمر ان النبی ۖ امر بزکوة الفطر قبل خروج الناس الی الصلوة (الف) (بخاری شریف ، باب الصدقة قبل العید ص ٢٠٤ نمبر ١٥٠٩)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید گاہ کی طرف نکلنے سے پہلے عید کے دن صدقة الفطر نکالے، اس سے بھی پہلے نکالے تو جائز ہے کیونکہ صدقة الفطر کا سبب اصلی مالداری ہے اور وہ موجود ہے اس لئے اگر صبح صادق سے پہلے ادا کردیا تو ادائیگی ہو جائے گی۔جیسے زکوة جلدی دے تو ادا ہو جاتی ہے۔(٢) اثر میں ہے فکان ابن عمر یودیھا قبل ذلک بالیوم والیومین (ب) (ابو داؤد شریف ، باب متی تودی ص ٢٣٤ نمبر ١٦١٠) اس اثر میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر صدقة الفطر عید کے ایک دن یا دو دن قبل ہی نکال دیتے تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ سبب تو عید الفطر کے صبح صادق کا وقت ہے لیکن اگر دو چار روز قبل ہی نکال دے تو ادائیگی ہو جائے گی۔
]٥٥٠[(١٤) اور اگر صدقة الفطر کو عید الفطر کے دن سے مؤخر کیا تو وہ ساقط نہیں ہوگا اور ان پر اس کا نکالنا ضروری ہوگا۔
تشریح اگر عید الفطر کے دن تک صدقة الفطر نہیں نکالا تو واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوگا۔ جیسے نماز واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتی ہے۔ اور بعد میں بھی اس کا نکالنا واجب ہوگا۔اور چونکہ ایک صاع یا آدھا صاع گیہوں ہی دینا پڑے گا اس لئے بوجھ بھی کوئی زیادہ نہیں ہے۔
حاشیہ : (الف)آپۖ نے صدقة الفطر نکالنے کا حکم دیا نماز کی طرف لوگوں کے نکلنے سے پہلے (ب) ابن عمر صدقة الفطر ادا کیا کرتے تھے عید الفطر سے ایک دن یا دو دن پہلے۔