Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 1 - یونیکوڈ

349 - 493
الکبار وان کانوا فی عیالہ]٥٤٠[ (٤) ولا یخرج عن مکاتبہ ]٥٤١[(٥) ولا عن ممالیکہ للتجارة]٥٤٢[ (٦) والعبد بین الشریکین لا فطرة علی واحد منھما]٥٤٣[ (٧) ویودی 

نوٹ  اگر باپ نے یا شوہر نے لڑکے اور بیوی کی طرف سے صدقة الفطر ادا کر دیا تو ادا ہو جائے گا۔کیونکہ دونوں کے درمیان وسعت ہوتی ہے۔ بیوی اور بڑا لڑکا اگر صاحب نصاب ہیں تو خود ادا کریںگے۔
]٥٤٠[(٤) اپنے مکاتب غلام کی جانب سے صدقة الفطر نہیں نکالے گا۔  
وجہ  (١)مولی مکاتب غلام کی کفالت نہیں کرتا بلکہ مکاتب خود کفیل ہوتا ہے اس لئے مکاتب مالدار ہو توخود مکاتب پر صدقة الفطر نکالنا واجب ہوگا (٢) اثر میں ہے  عن ابن عمر انہ کان یودی زکوة الفطر عن کل مملوک لہ فی ارضہ و غیر ارضہ وعن کل انسان یعولہ من صغیرا و کبیر وعن رقیق امرأتہ وکان لہ مکاتب بالمدینة فکان لا یودی عنہ (الف) (سنن للبیھقی ، باب من قال لا یودی عن مکاتبہ ج رابع ص٢٧٢، نمبر٧٦٨٦ مصنف ابن ابی شیبة، ٧٣ ماقالوا فی المکاتب یعطی عنہ سیدہ ام لا ج ثانی ص ٤٠٠،نمبر١٠٣٨٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر مکاتب کا صدقہ الفطر خود ادا نہیں کرتے تھے ۔کیونکہ وہ ان کی مؤنت میں نہیں تھا۔
]٥٤١[(٥)نہ تجارت کے غلاموں کی جانب سے صدقة الفطر نکالے۔  
وجہ  تجارت کے غلام کی قیمت میں زکوة ہے اس لئے اس کے لئے صدقة الفطر دینے کی ضرورت نہیں، ورنہ دو مرتبہ اس کی زکوة نکالنی ہو جائے گی۔
]٥٤٢[(٦) اور جو غلام دو شریکوں کے درمیان میں ہو ان دونوں میں سے کسی پر صدقة الفطر نہیں ہے۔  
وجہ  (١) دونوں شریکوں میں سے کوئی بھی پورا پورا مالک نہیں ہے اور نہ پوری پوری کفالت کر رہے ہیں بلکہ دونوں کی کفالت اور مؤنت آدھی آدھی ہے۔ اس لئے کسی شریک پر صدقة الفطر واجب نہیں ہوگا  (٢)  اثر میں ہے  عن ابی ھریرة قال لیس فی المملوک زکوة الا مملوک تملکہ (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ،١١٨فی المملوک یکون بین رجلین علیہ صدقة الفطر ج ثانی ص٤٢٣،نمبر١٠٦٥١) اس اثر میں الا مملوک تملکہ کا مطلب یہی ہے کہ تم مملوک کے مکمل مالک ہوتو زکوة یعنی صدقة الطفر واجب ہے،اور مکمل مالک نہیں ہو بلکہ شرکت میں مملوک ہے تو صدقة الفطر واجب نہیں ہے۔
]٥٤٣[(٧)مسلمان مولا صدقة الفطر ادا کرے گا اپنے کافر غلام کی جانب سے۔  
وجہ  (١) حنفیہ کے نزدیک غلام کاصدقہ مولی پر واجب ہوتا ہے اور مولی چونکہ مسلمان ہے اس لئے اس پر واجب ہوگا (٢) بخاری میں دوسری 

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابن عمر صدقة الفطر ادا کرتے تھے ہر مملوک کی جانب سے جو اس کی زمین میں ہو اور دوسری زمین میں ہو۔اور ہر انسان کی جانب سے جن کی وہ کفالت کرتے تھے،چھوٹا ہو یا بڑا۔اور اپنی بیوی کے غلام کی جانب سے ۔اور ان کا مکاتب غلام مدینہ طیبہ میں تھا تو ان کی جانب سے ادا نہیں کرتے تھے۔(ب) حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا مملوک میں صدقہ نہیں ہے مگر وہ مملوک جس کے تم پورے مالک ہو۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ( کتاب الطھارة ) 35 1
3 ( باب التیمم ) 73 2
4 (باب المسح علی الخفین) 82 2
5 (باب الحیض) 90 2
6 (باب الانجاس) 101 2
7 (کتاب الصلوة) 113 1
8 (باب الاذان) 121 7
9 (باب شروط الصلوة التی تتقدمھا) 127 7
10 (باب صفة الصلوة) 134 7
11 (باب قضاء الفوائت) 192 7
12 (باب الاوقات التی تکرہ فیھا الصلوة) 195 7
13 (باب النوافل) 200 7
14 (باب سجود السھو) 209 7
15 (باب صلوة المریض) 216 7
16 (باب سجود التلاوة) 221 7
17 (باب صلوة المسافر) 226 7
18 (باب صلوة الجمعة) 238 7
19 (باب صلوة العدین ) 250 7
20 ( باب صلوة الکسوف) 259 7
21 ( باب صلوة الاستسقائ) 263 7
22 ( باب قیام شہر رمضان) 265 7
23 (باب صلوة الخوف) 268 7
24 ( باب الجنائز) 273 7
25 ( باب الشہید) 291 7
26 ( باب الصلوة فی الکعبة) 295 7
27 ( کتاب الزکوة) 298 1
28 (باب زکوة الابل ) 303 27
29 (باب صدقة البقر ) 308 27
30 ( باب صدقة الغنم) 312 27
31 ( باب زکوة الخیل) 314 27
32 (باب زکوة الفضة) 322 27
33 ( باب زکوة الذھب ) 325 27
34 ( باب زکوة العروض) 326 27
35 ( باب زکوة الزروع والثمار ) 328 27
36 (باب من یجوز دفع الصدقة الیہ ومن لایجوز) 337 27
37 ( باب صدقة الفطر) 347 27
38 ( کتاب الصوم) 354 1
39 ( باب الاعتکاف) 378 38
40 ( کتاب الحج ) 383 1
41 ( باب القران ) 426 40
42 ( باب التمتع ) 433 40
43 ( باب الجنایات ) 442 40
44 ( باب الاحصار ) 471 40
45 ( باب الفوات ) 478 40
46 ( باب الھدی ) 481 40
Flag Counter