]٥٠٠[(٤) ویضم قیمة العروض الی الذھب والفضة وکذلک یضم الذھب الی الفضة بالقیمة حتی یتم النصاب عند ابی حنیفة ]٥٠١[(٥) وقالا لا یضم الذھب الی الفضة بالقیمة ویضم بالاجزائ۔
مہینہ شروع ہوگا ۔
وجہ شروع میں نصاب ہونا زکوة کے انعقاد کے لئے ہے اور اخیر میں نصاب ہونا زکوة واجب ہونے کے لئے ہے، اور درمیان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں کیا گیا۔
]٥٠٠[(٤) سامان تجارت کی قیمت سونے کی طرف اور چاندی کی طرف ملائی جائے گی، ایسے ہی سونے کو چاندی کی طرف قیمت کے ساتھ ملایا جائے گا تاکہ نصاب پورا ہو جائے ابو حنیفہ کے نزدیک۔
تشریح سونے کو چاندی کے ساتھ ملانے کے دو طریقے ہیںتاکہ نصاب مکمل ہوجائے۔ایک طریقہ یہ ہے کہ سونے کی قیمت لگا کر یا چاندی کی قیمت لگا کر سونے کے ساتھ ملایا جائے ۔اور دوسری شکل یہ ہے کہ وزن کے اعتبار سے ملایا جائے۔ مثلا ایک آدمی کے پاس ایک سو درہم ہے اور نو مثقال سونا ہے تو درہم کا نصاب آدھا ہے لیکن سونے کا نصاب آدھا یعنی دس مثقال سے ایک مثقال کم ہے لیکن نو مثقال کی قیمت ایک سو درہم دے رہا ہے تو قیمت کے اعتبار سے ایک سو درہم اور نو مثقال سونے کی قیمت ایک سو درہم دونوں ملاکر دوسو درہم ہو جاتے ہیں اور نصاب پورا ہو جاتا ہے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے گا اور زکوة واجب ہوگی۔ چاہے وزن کے اعتبار سے نصاب پورا نہ ہوتا ہو۔
نوٹ سامان تجارت کی بھی قیمت لگائی جائے گی اور اس کو سونے یا نقد چاندی کے ساتھ ملاکر نصاب پورا ہو جائے تو زکوة واجب کریںگے۔
]٥٠١[(٥) صاحبین فرماتے ہیں کہ سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔ اور وزن کے ساتھ ملایا جائے گا۔
تشریح اوپر کی مثال میں ایک سو درہم ہے اور نو مثقال سونا ہے تو وزن کے اعتبار سے سونا آدھے نصاب سے کم ہے چاہے اس کی قیمت ایک سو درہم ہو اس لئے سونا چاندی ملاکر نصاب پورا نہیں ہوا اس لئے زکوة واجب نہیں ہوگی۔اس لئے کہ اجزاء اور وزن کے اعتبار سے دونوں کو ملاکر بھی نصاب پورا نہیں ہوا،ہاں ! اگر سونا دس مثقال ہوتا تو آدھا نصاب اس کا ہوا اور آدھا نصاب چاندی کا ایک سو درہم ہے ۔
لغت الاجزاء : جزء کی جمع ہے،جز کے اعتبار سے، جس کا میں نے ترجمہ کیا ہے وزن کے اعتبار سے۔