]٤٩١[ (٣) وقال ابو یوسف و محمد مازاد علی المائتین فزکوتہ بحسابہ ]٤٩٢[(٤) وان کان الغالب علی الورق الفضة فھو فی حکم الفضة]٤٩٣[ (٥) واذا کان الغالب
درھما فخذ منھا درھما (الف) (دار قطنی ٣ ، باب لیس فی الکسر شیء ج ثانی ص ٨٠ نمبر ١٨٨٦ سنن للبیھقی ، باب ذکر الخبر الذی روی فی وقص الورق ج رابع ص ٢٢٨،نمبر٧٥٢٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسو درہم کے بعد جب تک چالیس درہم نہ ہو جائے تو اس کسر میں کچھ لازم نہیں ہے۔البتہ چالیس درہم ہو جائے تو اس میں ایک درہم ہے۔ ابو داؤد میں ہے۔ عن علی ...ھاتو اربع العشور من کل اربعین درھما درھم (ابو داؤد شریف ص ٢٢٧ نمبر ١٥٧٢)
]٤٩١[(٣)اور صاحبین نے فرمایا کہ دوسو درہم سے جو کچھ زیادہ ہو تو اس کی زکوة اس کے حساب سے ہوگی۔
تشریح مثلا دوسو درہم سے ایک درہم زیادہ ہو گیا تو ایک درہم میں ایک درہم کا چالیسواں حصہ لازم ہوگا۔ اور دس درہم میں ایک درہم کی چوتھائی لازم ہوگی۔
وجہ ان کی دلیل یہ حدیث ہے عن عاصم بن حمزة وعن الحارث الاعور عن علی رضی اللہ عنہ قال زھیر احسبہ عن النبی ۖ قال ھاتو ربع العشور من کل اربعین درھما درھم ولیس علیکم شیء حتی تتم مائتی درھم فاذا کانت مائتی درھم ففیھا خمسة دراھم فمازاد فعلی حساب ذلک (ب) (ابو داؤد شریف،باب فی زکوة السائمة ص ٢٢٧ نمبر ١٥٧٢ سنن للبیھقی ، باب وجوب ربع العشر فی نصابھا و فیما زاد علیہ وان قلت الزیادة ج رابع ص٢٢٧،نمبر٧٥٢١) اس حدیث میں ہے کہ دوسو درہم سے جو کچھ زیادہ ہو اس کی زکوة اس کے حساب سے لازم ہوگی۔ اس لئے ہر روپیہ میں اس کے حساب سے چالیسواں حصہ لازم ہوگی۔کلیکیو لیٹر سے چالیسواں حصہ 0.025 ہوگا۔
]٤٩٢[(٤)اگر غالب چاندی ہے تو وہ چاندی کے حکم میں ہے۔
تشریح درہم اور دنانیر بنانے کے لئے خالص چاندی کام نہیں آتی بلکہ اس میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ڈالنا پڑتا ہے تاکہ سخت ہو جائے اور درہم یا دنانیر ڈھال سکے ا س لئے اصل معیار یہ رکھا گیا ہے کہ زیادہ چاندی یا سونا ہو تو وہ مکمل چاندی اور سونے کے حکم میں ہیں۔ اور اگر زیادہ کھوٹ ہو تو وہ سامان کے حکم میں ہے۔
لغت الورق : چاندی سکہ۔
]٤٩٣[(٥) اور اگر چاندی یا سونے پر غالب کھوٹ ہے تو وہ سامان کے حکم میں ہیں۔ان میں یہ اعتبار کیا جائے گا کہ اس کی قیمت نصاب تک
حاشیہ : (الف) جب حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجا تو آپۖ نے فرمایا کہ کسر میں کچھ نہ لینا ،جب چاندی دوسو درہم ہو جائیں تو ان میں پانچ درہم لو، اور جو زیادہ ہو جائے ان میں سے کچھ مت لو۔ یہاں تک کہ چالیس درہم پہنچ جائے،اور جب چالیس درہم پہنچ جائے تو ان میں ایک درہم لو(ب) آپۖ نے فرمایا لاؤ چالیسواں حصہ، ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم ، اور تم پر کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ دوسو درہم پورے ہو جائیں۔ پس جب کہ دوسودرہم ہوں تو ان میں پانچ درہم ہیں۔ اور جو زیادہ ہو تو اس کی زکوة اس کے حساب سے ہوگی۔