]٣٨٧[(٢) ویطول القراء ة فیھما ویخفی عند ابی حنیفة وقال ابو یوسف و محمد
کاطول ما سجد بنا فی صلوة قط لا نسمع لہ صوتا ثم فعل فی الرکعة الاخری مثل ذلک (الف) (ابو داؤد شریف ، باب من قال اربع رکعات ص ١٧٥ نمبر ١١٨٤) اس حدیث میں بھی اس بات کا تذکرہ ہے کہ ایک رکعت میں دو رکوع نہیں کئے۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سورج گرہن کی نماز میں ایک رکعت میں دو رکوع نہیں کریںگے۔ بلکہ ایک رکوع ہی کیا جائے گا(٤)صڑف یہی ایک نماز ہے جس میں دو رکوع کا تذکرہ ہے باقی نمازوں میں ایک رکوع ہے۔اس لئے امام ابو حنیفہ اس طرف گئے ہیں جس میں ایک رکوع کا تذکرہ ہے۔البتہ کوئی دو رکوع کرے گا تو نماز فاسد نہیں ہوگی بلکہ نماز صحیح ہوگی ۔
فائدہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ سورج گرہن کی ہر رکعت میں دو رکوع ہوں۔ان کی دلیل یہ حدیث ہے ان عائشة زوج النبی ۖ اخبرتہ ان رسول اللہ ۖ صلی یوم خسفت الشمس فقام فکبر فقرأ قراء ة طویلة ثم رکع رکوعا طویلا ثم رفع رأسہ فقال سمع اللہ لمن حمدہ وقام کما ھو ثم قرأ قراء ة طویلةوھی ادنی من القراء ة الاولی ثم رکع رکوعا طویلا وھی ادنی من الرکعة الاولی ثم سجد سجودا طویلا ثم فعل فی الرکعة الآخرة مثل ذلک ثم سلم وقد تجلت الشمس (ب) (بخاری شریف ،باب ھل یقول کسفت الشمس او خسفت ص ١٤٢ نمبر ١٠٤٧ مسلم شریف ، کتاب الکسوف ص ٢٩٥ نمبر ٩٠١) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر رکعت میں دو رکوع ہوں۔
]٣٨٧[(٢)دونوں رکعتوں میں قرأت لمبی کی جائے گی اور آہستہ کی جائے گی امام ابو حنیفہ کے نزدیک،اور کہا صاحبین نے کہ زور سے پڑھی جائے گی وجہ (١) مسئلہ نمبر ایک میں ابو داؤد شریف کی حدیث گزری جس میں یہ الفاظ تھے فقام بنا کاطول ماقام بنا فی صلوة قط لا نسمع لہ صوتا (ج) (ابو داؤد شریف ، باب من قال اربع رکعات ص ١٧٥ نمبر ١١٨٤ ) اس حدیث میں راوی فرماتے ہیں کہ قیام کی حالت میں بھی آپ کی آواز ہم نہیں سنتے تھے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ آپۖ قرأت سری کر رہے تھے (٢) اس ابو داؤد شریف کی دوسری حدیث ہے عن عائشة قالت کسفت الشمس علی عہد رسول اللہ ۖ فخرج رسول اللہ فصلی بالناس فقام فحزرت قرأتہ فرأیت انہ قرأ سورةالبقرة (د) (ابو داؤد شریف، باب القراء ة فی صلوة الکسوف ص ١٧٥ نمبر ١١٨٧) اس حدیث میں ہے کہ میں نے اندازہ لگایا کہ آپ کی قرأت سورۂ بقرہ اتنی لمبی تھی۔اندازہ لگانے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپۖ نے قرأت زور سے نہیں کی۔ورنہ تو صاف کہتے کہ
(ج) پس آپۖ نے نماز پڑھائی تو ہم کو اتنی لمبی دیر تک لیکر کھڑے ہوئے کہ کبھی بھی اتنی دیر تک لیکر کھڑے نہیں ہوئے۔آپ کی کوئی آواز ہم نہیں سنتے تھے۔پھر ہم کو اتنالمبا رکوع کراوایا کہ کسی نماز میں اتنا لمبا رکوع نہیں کروایا ۔ہم آپ کی کوئی آواز نہیں سنتے تھے۔فرمایا پھر ہم کو اتنا لمبا سجدہ کروایا کہ اتنا لمبا سجدہ کسی نماز میں کبھی نہیں کروایا۔ہم آپ کی کوئی آواز نہیں سنتے تھے۔ پھر دوسری رکعت میں ایسا ہی کیا(ب)آپۖ نے نماز پڑھی اس دن جب سورج گرہن ہوا ۔پس کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور لمبی قرأت کی ،پھر لمبا رکوع کیا ،پھر سر اٹھایا پھر کہا سمع اللہ لمن حمدہ پھر کھڑے ہوئے جیسے تھے پھر لمبی قرأت کی وہ پہلی قرأت سے کم تھی پھر لمبا رکوع کیا وہ پہلے رکوع سے کم تھا پھر لمبا سجدہ کیا پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا پھر سلام پھیرا اور سورج کھل چکا تھا(ج) ہم کو بہت لمبی دیر تک لیکر کھڑے ہوئے کسی بھی نماز میں اتنی دیر تک لیکر کھڑے نہیں ہوئے ۔ہم آپ کی آواز نہیں سن رہے تھے (د) حضرت عائشہ نے فرمایا سورج حضورۖ کے زمانے میں گرہن ہوا تو حضورۖ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی ،پس کھڑے ہوئے تو میں نے آپ کی قرأت کا اندازہ لگایا تو دیکھا کہ آپ نے سورۂ بقرہ کے مطابق پڑھی ہے۔