علی الراحلة یسبح یؤمی برأسہ قبل الی ای وجہ توجہ ولم یکن رسول اللہ ۖ یصنع ذلک فی الصلوة المکتوبة (الف) (بخاری شریف ، باب ینزل للمکتوبة ص١٤٨ نمبر ١٠٩٧ مسلم شریف ، باب جواز صلوة النافلة علی الدابة فی السفر حیث توجھت ص ٢٤٤ نمبر ٧٠٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفل نماز میں سواری پر رکوع سجدے کا اشارہ کرے گا۔اور فرض نماز میں اتر کر نماز پڑھنا ہوگی۔
شہر سے باہر کی قید اس لئے لگائی کہ بعض حدیث میں ہے کہ آپۖ نے شہر سے باہر نفل کی نماز سواری پر پڑھی تو قبلہ کے خلاف رخ پر پڑھی ہے۔اس لئے حنفیہ نے قید لگائی کہ شہر سے باہر ایسا کر سکتا ہے۔شہر میں سواری سے اتر کر نماز پڑھنی ہوگی۔ حدیث میں ہے کان عبد اللہ بن عمر یصلی فی السفر علی راحلتہ اینما توجھت بہ یؤمی وذکر عبد اللہ ان النبی ۖ کان یفعلہ (ب) (بخاری شریف ، باب الایماء علی الدابة ص ١٤٨ ابواب تقصیر الصلوة نمبر ١٠٩٦ مسلم شریف ،باب جواز صلوة النافلة علی الدابة فی السفر ص ٢٤٤ نمبر ١٦١٤٧٧٠)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سفر میں قبلہ کے خلاف رخ پر نماز پڑھتے تھے۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ شہر میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
فائدہ امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ اوپر کی بہت سے احادیث میں سفر کی قید اور شہر سے باہر کی قید نہیں ہے اس لئے شہر کے اندر سواری پر سوار ہوتو وہاں بھی خلاف قبلہ نماز پڑھ سکتا ہے۔
حاشیہ : (الف)میں نے حضور کو دیکھا کہ آپۖ سواری پر نفل پڑھ رہے تھے اور سر سے اس جانب اشارہ کر رہے تھے جس جانب متوجہ تھے۔اور حضورۖ یہ فرض نماز میں نہیں کرتے(ب) حضرت عبد اللہ بن عمر سفر میں سواری پر نماز پڑھتے جس طرف سواری متوجہ ہوتی اور اشارہ کرتے۔اور عبد اللہ بن عمر ذکر کرتے ہیں کہ حضورۖ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔