التشھد]١٧٧[ (٧) وما زاد علی ذلک فھو سنة۔
وجہ (١) یہ حدیث ہے وہ صحابی جس نے نماز جلدی جلدی پوری کی ا ور تین مرتبہ حضورۖ کی خدمت میں آئے ان کو آپۖ نے نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا۔اس حدیث کے آخر میں آپۖ نے چار کام کرنے پر زور دیا ہے۔ان میں سے تین کام تو آیت کی وجہ سے فرض ہیں۔اس لئے چوتھا کام بھی فرض ہی ہونا چاہئے۔حدیث میں ہے عن رفاعة بن رافع ان رسول اللہ ۖ بینما ھو جالس فی المسجد یوما ... فان کان کان معک قرآن فاقرء والا فاحمد اللہ وکبر ہ وھللہ ثم ارکع فاطمئن راکعا ثم اعتدل قائما ثم اسجد فاعتدل ساجدا ثم اجلس فاطمئن جالسا ثم قم فاذا فعلت ذلک فقد تمت صلوتک وان انتقضت منہ شیئا انتقضت من صلوتک (الف) (ترمذی شریف ،باب ماجاء فی وصف الصلوة ص ٦٦ نمبر ٣٠٢) اس حدیث میں (١) قرأت (٢) رکوع (٣) سجدہ (٤)اور تشہد میں بیٹھنے کے لئے کہا گیا ہے۔پھر یہ بھی کہا کہ ان میں سے کسی چیز کی کمی رہ گئی تو تمہاری نماز میں کمی رہ گئی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ قعدۂ اخیرہ میں کمی رہ گئی تو نما میں کمی رہ گئی تو نماز میں کمی رہ جائے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قعدۂ اخیرہ تشہد کی مقدار فرض ہے(٢) ترمذی کے اسی باب میں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث ہے جس کے اخیر میں یہ جملہ ہے ثم ارفع حتی تطمئن جالسا وافعل ذلک فی صلوتک کلما (ب) (ترمذی شریف،باب ما جاء وصف الصلوة ص ٦٧ نمبر ٣٠٣) اس سے بھی معلوم ہوا کہ قعدۂ اخیرہ میں بیٹھنا فرض ہے (٣) ابو داؤد میں عبد اللہ بن مسعود کی حدیث ہے وان رسول اللہ ۖ اخذ بید عبد اللہ بن مسعود فعلمہ التشھد فی الصلوة فذکر مثل دعاء حدیث الاعمش اذا قلت ھذا اوقضیت ھذا فقد قضیت صلوتک ان شئت ان تقوم فقم وان شئت ان تقعد فاقعد (ج)(ابو داؤد شریف ، باب التشہد ص ١٤٦ نمبر ٩٧٠)اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ تشہد کی مقدار بیٹھے گاتو نماز پوری ہوگی ورنہ نہیں (٤) آپۖ نے کوئی بھی نماز بغیر تشہد کی مقدار بیٹھے ہوئے پوری نہیں کی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تشہد کی مقدار بیٹھنا فرض ہے (٥) عن ابن عمر ان رسول اللہ ۖ قال اذا قضی الامام الصلوة وقعد فاحدث قبل ان یتکلم فقد تمت صلوتہ ومن کان خلفہ ممن اتم الصلوة (د)(ابو داؤد شریف،باب الامام یحدث بعد ما یرفع رأسہ ص٩٨ نمبر ٦١٧) اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قعدۂ اخیرہ فرض ہے۔
]١٧٧[(٧)اور جو ان سے زیادہ ہو وہ سنت ہے۔
تشریح مصنف نے ان کے علاوہ کو سنت کہا ہے حالانکہ نماز میں کچھ چیزیں واجب بھی ہیں۔ لیکن سب کو سنت اس لئے کہا کہ وہ سنت اور
حاشیہ : (الف) حضورمسجد میں ایک دن بیٹھے ہوئے تھے ... آپۖ نے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کچھ قرآن ہو تو اس کو پڑھو ورنہ اللہ کی تحمید کرو،تکبیر کرو اور تہلیل کرو۔پھر اطمینان سے رکوع کرو پھر پورے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو اور پورے اطمینان سے سجدہ کرو۔پھر بیٹھ جاؤ اور پورے اطمینان سے بیٹھو پھر کھڑے ہو جاؤ۔پس جب تم نے اتنا کیا تو نماز پوری کر لی اور ان میں سے کچھ کمی رہ گئی تو نماز میں کمی رہ گئی(ب)پھر سر سجدے سے اٹھائیں یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جائیں اور یہ چیزیں اپنی تمام نمازوں میں کریں(ج)آپۖ نے عبد اللہ بن مسعود کا ہاتھ پکڑا پھر ان کو نماز کی تشہد سکھلائی (پس حضرت اعمش کی حدیث کی طرح دعا کا ذکر کیا) پھر آپۖ نے فرمایا جب تم نے تشہد کہہ لیا یا ادا کر لیا تو اپنی نماز پوری کرلی۔اس لئے اگر اٹھنا چاہیں تو اٹھ جائیں اور اگر بیٹھنا چاہیں تو بیٹھ جائیں(د) آپۖ نے فرمایا اگر امام نے نماز پوری کرلی اور بیٹھ گیا پھر بات کرنے سے پہلے حدث ہوگیا تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔اور جو اس کے پیچھے ہیں ان کی نماز بھی پوری ہو گئی۔