٢ والوَسَق ستون صاعًا بصاع النبی علیہ السلام۔
تشریح: سبزی وغیرہ جو زیادہ دیر تک باقی نہ رہتے ہوں ان میں صاحبین کے نزدیک عشر نہیں ہے۔ اسی طرح جب تک کہ غلے کی مقدار پانچ وسق نہ ہو جائے تو اس میں عشر نہیں ہے۔
وجہ : ان کی دلیل یہ حدیث ہے (١) ۔عن معاذ انہ کتب الی النبی ۖ یسألہ عن الخضروات و ھی البقول فقال لیس فیھا شیء (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی زکوة الخضروات ص ١٣٨ نمبر ٦٣٨ سنن للبیھقی ، باب الصدقة فیما یزرعہ الآدمیون ج رابع ص ٢١٦،نمبر٧٤٧٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سبزیوں میں عشر نہیں ہے۔(٢) اس اثر میں ہے ۔عن ابن جریج قال : قال عطاء لیس فی البقول ، و القصب ، و الجرجیر ، و القثاء ، و الکرسف ، و العصفر ، و الفواکہ ، و الاترج ، و التفاح ، و الجوز، و التین ، و الرمان ، و الفرسک ، و الفواکہ یعدھا کلھا لیس فیھا صدقة وانما تؤکل ۔(مصنف عبد الرزاق ، باب الخضر ج رابع ص٩٣ نمبر ٧٢١٤مصنف ابن ابی شیبة ،٣١ فی الخضر من قال : لیس فیھا زکوة ، ج ثانی ، ص٣٧٢، نمبر١٠٠٤٤) اس اثر میں ہے کہ اوپر کے سبزیات میں عشر نہیں ہے ۔ (٣)اور پانچ وسق ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے۔ عن ابی سعید الخدری عن النبی ۖ قال لیس فیما اقل من خمسة اوسق صدقة(بخاری شریف، باب لیس فیما دون خمسة اوسق صدقة ص ٢٠١ نمبر ١٤٨٤ مسلم شریف ، باب لیس فیما دون خمسة أوسق صدقة ،کتاب الزکوة ص ٣١٦ نمبر ٩٧٩ ٢٢٦٣ ابو داؤد شریف ، باب ما تجب فیہ الزکوة ص ٢٢٤ نمبر ١٥٥٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پانچ وسق سے کم میں زکوة نہیں ہے۔ یہ حدیث کئی مرتبہ پہلے گزر چکی ہے۔
ترجمہ: ٢ وسق ساٹھ صاع کاہو حضورۖ کے صاع سے۔
تشریح : وسق ساٹھ صاع کا ہو تا ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے ۔(١)عن ابی سعید الخدری یرفعہ الی النبی ۖ قال : لیس فیما دون خمسة اوساق زکاة ۔ و الوسق ستون مختوما ۔ ( سنن بیہقی ، باب مقدار الوسق، ج رابع ، ص٢٠٤، نمبر٧٤٢٧) اس حدیث میں ہے کہ وسق ساٹھ صاع کا ہو تا ہے (٢) اس اثر میں بھی ہے کہ وسق ساٹھ صاع کا ہو تا ہے ۔عن ابن عمر قال : الوسق ستون صاعا ( سنن بیہقی ، باب مقدار الوسق، ج رابع ، ص٢٠٤، نمبر٧٤٢٨ مصنف عبد الرزاق ، باب کم الوسق ، ج رابع ، ص ١١٠، نمبر ٧٢٨٩) اس اثر میں ہے کہ وسق ساٹھ صاع کا ہو تا ہے ۔ وسق ساٹھ صاع کا ہوا تو پانچ وسق 300 صاع ہوا ، اور ایک صاع کا وزن 3.538 کیلو ہے اس اعتبار سے 300 صاع کا وزن 1061.40 کیلو ہوا ، یعنی 10 کوئنٹل 61 کیلواور 40 گرام ہوا ۔
اور حضور ۖ کے صاع سے ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ۖ کے صاع کا اعتبار ہے، حدیث میں ہے کہ اہل مدینہ کے صاع کا اعتبار ہے اور