٤ والمروی عن عمر فیما دسرہ البحر وبہ نقول (٨٣٧) متاع وجدرکاز فہو للذی وجد وفیہ الخمس) ١ معناہ وجد فی الارض لا مالک لہا لانہ غنیمة بمنزلة الذہب والفضة . واﷲ اعلم۔
ترجمہ: ٤ اور حضرت عمر سے جو روایت پیش کی ہے وہ اس عنبر کے بارے میں ہے جسکو سمندر نے کنارے پر پھنک دیا ] اور غازیوں نے اس کو لے لیا ہو اور اس کے قائل ہم بھی ہیں ۔
تشریح : یہ حضرت امام ابو یوسف کو جواب ہے ، انہوں نے اثر پیش کیا تھا کہ حضرت عمر نے عنبر میں خمس لیا ہے ،تو اس کا جواب دے رہے ہیں کہ یہ اس عنبر کے بارے میں ہے جس کو سمندر کی مو جوں نے دارالحرب کی زمین پر پھینک دیا اور غازیوں نے اس پر قبضہ کر لیا تو چونکہ اس پر غازیوں کا قبضہ ہے ، یا دار الحرب کی زمین سے لیا ہے جس پر غازیوں کا غلبہ ہے تو یہ مال غنیمت کے درجے میں ہوا اس لئے اس عنبر میں خمس ہو نا چاہئے ، اس کے قائل ہم بھی ہیں ، یہ براہ راست سمندر سے نکالے ہو ئے عنبر کے بارے میں نہیں ہے ۔۔دسر: باہر پھینک دیا ۔
ترجمہ: (٨٣٧) سامان بطور رکاز پا یا گیا تو اس کا ہے جس نے پا یا ۔ اور اس میں خمس ہے ۔
ترجمہ: ١ اس کا معنی یہ ہے کہ ایسی زمین میں پا یا جس کا کوئی مالک نہیں ہے ، اس لئے یہ سونے اور چاندی کے درجے میں غنیمت کا مال ہے۔
تشریح : سونے چاندی کے علاوہ گھر میں کام آنے والا سامان ، مثلا کپڑا ، ہتھیار ، آلات وغیرہ کا دفینہ پا یا ، اور وہ بھی ایسی زمین میں جو کسی کی ملکیت نہیں ہے ، مباح ہے تو اس کا حکم سونے چاندی کا ہو گا ، اس میں سے ایک خمس حکومت کو ملے گا اور باقی چار خمس پانے والے کو مل جائے گا، کیونکہ یہ بھی سو نے چاندی کی طرح مال غنیمت کے درجے میں ہے ۔
اصول : سامان دفینہ ہو تو اس کا بھی حکم درہم اور دینار کی طرح ہے ۔