٦ ثم الزیادة تعتبر من حیث الاوقات عند محمد لان التکرار یتحقق بہ ٧ وعندہما من حیث الساعات ٨ ہو الماثور عن علی وابن عمر واﷲ اعلم بالصواب۔
ترجمہ: ٦ پھر زیادتی کا اعتبار امام محمد کے نزدیک وقت کے اعتبار سے ہے ۔ اسلئے کہ تکرار اسی سے متحقق ہو تا ہے ۔
تشریح : ایک دن ایک رات سے زیادہ بیہوش رہے تو اس پر نماز کی قضاء نہیں ہے ۔اس بارے میں اختلاف ہے کہ وقت کے اعتبار سے زیادتی ہو یا گھنٹے کے اعتبار سے ۔ ۔ امام محمد کی رائے ہے کہ وقت کے اعتبار سے زیادتی کا اعتبار ہے ۔ یعنی اگر بیہوشی پر چھ نمازوں کا وقت گزر گیا تو اب ساری نماز یں معاف ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ چھٹے نماز کے وقت کے گزر نے سے نماز مکرر ہو گی ، اسلئے چھٹی نماز کا وقت گزر جائے تب ایک دن ایک رات پر زیادتی سمجھی جائے گی ۔ مثلا ظہر کے وقت میںساڑھے بارہ دن کو بیہوش ہوا تو اگلے دن ظہر کی نماز گزر جانے کے بعد مثلاچار بجے تک بیہوش رہا تو سب نمازیں معاف ہوں گی ، اور اگر اس سے پہلے ہوش میں آگیا تو تمام نمازیں قضاء کر نی ہو گی ۔
ترجمہ: ٧ اور امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک گھنٹے کے اعتبار سے ۔
تشریح : شیخین کی رائے یہ ہے کہ گھنٹے کے اعتبار سے ایک دن رات سے زیادہ ہو جائے تو تمام نمازیں معاف ہو جائیں گی ۔ مثلا پچیس گھنٹہ بیہوش رہ گیا تو تمام نمازیں معاف ہو جائیں گی ۔
اختلاف کا نتیجہ : ۔ اختلاف کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہو گا کہ ایک آدمی چاشت کے وقت آٹھ بجے بیہوش ہوا اور دوسرے دن نو بجے ہو ش میں آیا تو شیخین کے نزدیک ایک دن رات سے ایک گھنٹہ زائد ہو چکا ہے اسلئے تمام نمازیں معاف ہوں گی ۔ اور امام محمد کے نزدیک اب تک پانچ ہی نمازیں فوت ہوئیں ہیں چھٹی نماز تو ظہر کے بعد گویا کہ چار بجے قضاء ہو گی اور نماز مکرر ہو گی اسلئے ابھی نمازیں معاف نہیں ہوں گی ۔
ترجمہ: ٨ یہی استحسان کا معاملہ حضرت علی ، اور حضرت عبد اللہ ابن عمر سے منقول ہے ۔
تشریح : یعنی چھ نمازوں سے کم ہو تو قضاء ہے اور چھ نمازوں سے زیادہ ہوں تو قضاء نہیں ہے ۔ حضرت علی کا تو کوئی قول نہیں ملا ، البتہ حضرت عبد اللہ ابن عمر کا قول کئی مرتبہ نقل کر چکا ہوں ۔