نہیں کہ یہ عدد کس چیز کا ہے ۔نماز کا ہے یا فرشتوں کے بازؤوں کا یا منکوحہ عورتوں کا ۔استغفر اﷲ العظیم۔
غرض علماء کو یہ طرز اختیار نہ کرنا چاہئے کہ ہر مسئلہ کا قرآن سے ثبوت دینے کی کوشش کریں یا ہر مسئلہ کی عقلی علت بیان کریں ۔کیونکہ بعض جگہ آپ کو علت ہی نہ ملے گی یا ملے گی تو کمزور ہوگی ۔تو س طرز سے گویا آپ شریعت کی جڑ کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔
ایک صاحب نے مجھ سے اپنا قصہ بیان کیا کہ ایک جنٹلمین کو میں نے نصیحت کی کہ تم ڈاڑھی کیوں منڈاتے ہو یہ گناہ ہے ۔اس سے توبہ کرنی چاہئے ۔وہ کہنے لگے کہ داڑھی کا ثبوت تم قرآن سے دے دو تو میں بھی توبہ کرلوں گا ۔میں نے کہا کہ قرآن سے داڑھی کا ثبوت میں دے سکتا ہوں نچانچہ میں نے یہ آیت پڑھی
قال یابن ام لا تأخذ بلحیتی ولا برسی
ہارون علیہ السلام نے (موسیٰ علیہ السلام سے) کہ اے میرے ماں جائے ! میری داڑھی اور سر کو نہ پکڑ ۔اس سے معلوم ہوا کہ ہارون علیہ السلام کے داڑھی تھی ورنہ موسیٰ علیہ السلام اسے کس طرح پکڑتے۔
میں نے ان حضرت سے یہ کہا کہ اگ وہ شخص تم سے یہ سوال کرتا کہ اس آیت سے تو داڑھی کا وجود ثابت ہوا کہ ہارون علیہ السلام کے داڑھی تھی ۔وجوب تو ثابت نہ ہوااور وجود ثابت کرنے کے لیے تم نے قرآن کو کیوں تکلیف دی اپنی ہی داڑھی دکھلاد ی ہوتی کہ لو میری داڑھی دیکھ لو اس سے وجود ثابت ہوگیا ۔
وہ کہنے لگے کہ اجی اس کو اتنی عقل تھوڑا ہی تھی کہ وہ یہ سوال کر سکتا ۔میں نے تو اس کو دڑبڑا ہی لیا ۔ میں نے کہا بس یہی فرق ہے ہ طاب علوں میں اور آپ میں ۔ہم ایسی دلیل کبھی نہیں بیان کرسکتے جو خود ہمارے نزدیک بھی مخدوش ہو ۔ہماری زبان ہی ایسی دلیل پر نہیں چلتی ۔ہم تو حتی الامکان وہی بات منہ سے نکالتے ہیں جو دنیا بھر کے عقلاء سے نہ ٹوٹ سکے ۔گو مخاطب کے مذاق کے موافق نہ ہو ۔پس خوب سمجھ لو کہ یہ طرز شریعت کے لیے بہت ہی ضرر رساں ہیں ۔یہ لوگ اپنے دل ہی میں خوش ہوتے ہوں گے کہ ہم نے شریعت کے ساتھ دوستی کی مگر ان کی یہ دوستی ویسی ہی ہے جیسے ریچھ کی دوستی مشہور ہے ۔
ایک شخص نے ایک ریچھ پالا تھا اور اسے پنکھا جھلنا سکھایا تھا کہ جب آقا سو جاتا تو وہ کھڑا ہو کر اسے پنکھا چھلا کرتا تھا ۔بعض دوستوں نے اسے منع بھی کیا کہ جانور کا اعتبار نہیں۔اس سے ایسی خدمت نہ لینا چاہئے کہ خود سوجاؤ اور اسے آزاد چھوڑ دو ۔کہنے لگا نہیں صاحب ! یہ تعلیم یافتہ ہے ۔(یعنی اب یہ مہذب اور شائستہ ہوگیا ہے وحشی نہیں رہا) اب اس سے کچھ خطرہ نہیں ۔ایک دن یہ اقا صاحب پڑے سو رہے تھے اور ریچھ حسب معمول پنکھا جھل رہا تھا کہ ایک مکھی اس کے ناک پر آکر بیٹھی ۔ریچھ نے اسے اڑا یا وہ پھر آبیٹھی ۔بعض مکھی ایسی لیچڑ ہوتی ہے کہ جتنا اس کو اس کو اڑاؤ وہ باز ہی نہیں آتی وہ بار بار اکر