کی دینی اعتبار سے فوری ضرورت ہے کہ نہ معلوم اس غلط مسئلہ کی وجہ سے کتنی بدکاریاں مسلمانوں میں ہوتی ہوں گی اور یہ بات ایسی ہے کہ اگر مسلمان گورنمنٹ سے اس کی اصلاح کی درخواست کریں تو وہ فوراً اس پر توجہ کرے گی ۔ مگر آج کل لوگوں کی یہ حالت ہے کہ جو کام ہو سکتا ہو جس کی تدابیر ان کے اختیار میں ہوں جس کی کامیابی کی پوری امید ہو وہ کام تو کرتے نہیں اور جو کام اختیار سے باہر ہو جو ان سے نہ ہو سکے اس کی پیچھے پڑجاتے ہیں جیسا کہ مشاہدہ میں ہورہا ہے ۔میں کہتا ہوں ؎
رزو می خواہ لیک بر اندازہ خواہ
بر نہ تابد کوہ را برگ کاہ
اور یہ مذاق بھی اس جہالت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ اگر لوگ دین سے واقف ہوتے تو الاہم فالاہم پر عمل کرتے ۔ غرض ہر کام کے لیے علم دین کی سخت ضرورت ہے ۔ علم دین کے بغیر یہی نہیں معلوم ہوتا کہ ضروری کون سی چیز ہے اور غیر ضروری کون سی چیزہے ۔
پس انگریزی میں کسی محقق نے دینی مسائل لکھ دیئے ہوں تو پھر ان انگریزی کتابون کا پڑھنا بھی ثواب میں داکل ہے ۔ باقی عام لوگوں کو انگریزی کتابیں خواہ وہ دین ہی کی طرف منسوب ہوں ،قابل اعتبار نہیں اور جن میں دین کا نام بھی نہ ہو وہ تو محض دنیا ہے ۔ ایسی تعلیم تعلم پر علمی فضیلت کی احادیث وآیات کو منطبق کرنا تو نری جہالت ہے ۔
اب میں بیان کو ختم کرنا چاہتا ہوں کیونکہ بہت دیر ہوگئی ہے نماز ظہر کا بھی وقت آگیا ہے ۔بس میں خلاصۂ وعظ بیان کر کے ختم کرتا ہوں۔
خلاصہ یہ ہوا کہ تعلیم دین کو وسیع کرنا چاہئے ۔ علم دین کو عربی ہی کے ساتھ مخصوص نہ کرنا چاہئے ۔اور اس کے ضمن میں مَیں نے ہر طبقہ کی تعلیم کی طریقہ بھی بتلا دیا ہے لیکن اس کی ساتھ عربی کو فضول نہ سمجھیں۔ جو لوگ معاش سے فارغ ہوں ان پر عربی پڑھنا اور اولاد کو پڑھانا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔لیکن معلمین کو بھی میں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنا طرز تعلیم بدلیں ۔ طالب علم کی حیثیت کے موافق تقریر کیا کریں ۔ میزان الصرف میں شرح ملا جامی نہ پڑھایا کریں ۔
میں نے ایک مدرس کو دیکھا کہ وہ اﷲ کے بندے میزان میں یہ بیان کر رہے تھے کہ الحمد میں جو الف لام ہے یہ استغراق کا ہے ہے ۔الف لام کی چار قسمیں ہیں ۔ایک جنسی ،ایک عہد خارجی ، ایک عہد ذہنی، ایک استغراقی ۔بھلا یہ مضامین میزان میں بیان کرنے کے ہیں ۔بس وہ مدرس صاحب بیان کر رہے تھے اور طالب علم ان کا منہ تک رہا تھا ۔ میں نے کہا کہ اس بیچارہ کے نزدیک تو الف لام استغراق ہی کا ہوتا ہے ۔ اور کہیں کا نہیں ہوتا کیونکہ اس الف لام نے اس کو تو مستغرق بنا دیا ہے ۔
اسی طرح مدرسوں کو چاہئے کہ ہر طالب علم کو پوری عربی پڑھانا ضروری نہ