Deobandi Books

تعمیم التعلیم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

80 - 86
میں بعض دفعہ دو ایسی چیزوں کو جن کے ساتھ دو فعل متعلق ہوتے ہیں اختصار کے لیے ایک ہی فعل کے تحت میں بیان کر دیتے ہیں ۔ مثلاً دعوت کے موقعہ پر کہا کرتے ہیں کہ کچھ دانا پانی ہمارے یہاں بھی کھا لیجئے گا ۔ حالانکہ پانی تو پینے کی چیز ہے کھانے کی چیز نہیں اصلا کلام اس طرح تھا کہ کچھ دانا کھا لیجئے گا پانی پی لیجئے گا مگر اختصار کے لیے ایک فعل کو حذف کر کے دونوں چیزوں کو ایک فعل کے تحت میں ذکر کر دیتے ہیں ۔ 
اسی طرح اگر کوئی پوچھے  ۱؎کہ تم نے دعوت میں کیا کھایا تھا ؟ تو جواب میں کہا کرتے ہیں پلاؤ ،زردہ  دودھ ، دہی ، گوشت کھایا تھا حالانکہ دودھ پینے کی چیز ہے ۔ یوں کہنا چاہئے تھا کہ دودھ پیا تھا باقی چیزیں کھائی تھیں ۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب سمجھو کہ  ’’أَرْجُلِکُمْ‘‘کا عطف اگر ’’ فامسحوا‘‘ کے تحت میں بھی مان لیا جائے تو یہ لازم نہیں آتا کہ پیروں کے لیے مسح کا حکم ہے بلکہ یہ کہا جائے گا کہ’’ رؤس وارجل‘‘ کا تعلق اصل میں دو فعلوں سے تھا ۔ ایجازاً ایک فعل کو حذف کر دیا گیا اور ظاہر میں دونوں کو  ’’ فامسحوا‘‘کے متعلق کر دیا گیا اور مطلب وہی ہے کہ سر کا مسح کرو اور پیروں کو دھؤو ۔ عربی میں اس کی نظیر یہ کلام ہے ۔ ’’علفتہ تبنا وماء ا باردا‘‘ اور اگر’’ وامسحوا ‘‘حکم کو بھی ’’ارجلکم ‘‘کے متعلق مان لیاجائے تب بھی کچھ اشکال نہیں کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ دو قرأتیں بمنزلہ دو آیتوں کے ہوا کرتی ہیں ۔ جس طرح دو آیتیں اپنے اپنے حکم کو مستقلاً ثابت کرتی ہیں اور دونوں پر عمل ضروری ہے اسی طرھ دو قرأتیں بھی معمول بہا ہوتی ہیں  پس ’’ارجلکم ‘‘میں قرأت بالجر ہونے سے یہ معلوم ہوا کہ پیروں کے لیے مسح کا بھی حکم ہے ۔ 
رہا یہ کہ غسل کا حکم نہیں ہے ۔ یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کیونکہ قرأت نصب غسل کو لازم کر رہی ہے  تو مجموع قرأتین سے یہ ثابت ہوا کہ پیروں کے لیے مسح اور غسل کا حکم ہے ۔ اس طرح قرأت جربحالت لبس خف ہے اور قرأت نصب بحالت عدم خف ہے ۔ یہ تاویل بھی بہت عمدہ ہے ۔
اور ایک توجیہ میرے ذہن میں ایک سوال کے وقت آئی وہ یہ کہ مسح کے معنی ملنے کے ہیں خواہ بدون غسل کے یا مع غسل کے ۔ پس دھونا تو ایک قرأت سے اور حدیث متواتر سے فرض ہوا اور ملنا قرات جر سے مامور بہ ہوا بمعنی مستحب ۔ جس کی وجہ یہ ہے پیروں کی کھال سخت ہوتی ہے تو عادۃً اکثر اس پر پانی بہانا کافی نہیں ہوتا ملنے سے پانی پہنچتا ہے ۔ چنانچہ فقہا نے اسی اہتمام کے لیے اس کو بھی مندوب کہا ہے کہ وضو کے قبل پاؤں کو تر کر لیاجاوے ۔ پھر آخر وضو مین دھویا جاوے ۔ غرض آپ نے معلوم کر لیا کہ نحو کی کس قدر ضرورت ہے کیونکہ بعض اشکالات اسی سے رفع ہوتے ہیں ۔
چنانچہ ایک نیچری مفسر نے دعویٰ کیا تھا کہ قرآن میں غلامی کے مسئلہ کا ثبوت نہیں بلکہ ایک آیت سے تو اس کی نفی ہوتی ہے اور وہ آیت یہ ہے ۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تمہید 1 1
3 علم سحر 1 2
4 ومن شر الننفّٰثٰت فی العقد 2 2
5 نیت کا اثر 2 2
6 علت اور شریعت 6 2
7 انما البیع مثل الربوا 7 2
8 اصول شریعت 8 2
9 فاعتبرو ایا اولی الابصار 9 2
10 عجب وکبر 11 2
11 عقلی علت بعض لوگ 12 2
12 حکمتِ احکام 15 2
13 نسبت مع اﷲ 17 2
14 حرمت کا مدار 18 2
15 بے وضو نماز 20 2
16 مولوی کی تعریف 21 2
17 بسم اﷲ پڑھنا 22 2
18 نفع کی چیز 24 2
19 سفلی وعلوی عمل 24 2
20 توجہ ومسمریزم کی حقیقت 25 2
21 علوی عمل کی حدود 28 2
22 سحر کی تاثیر 29 1
23 کشف کے خطرات 31 22
24 تعلیم نسواں کی ضرورت 32 22
25 عجائب پرستی 34 22
26 غلو فی الدین 35 22
27 عوام کا اعتقاد 36 22
28 واعظین کا مذاق 37 22
29 مجذوب اور سالک کا فرق 42 22
30 کاملین کے کمالات 43 22
31 سحر کے اثرات 46 22
32 علم محمود 47 22
33 مناظرے کی خرابیاں 48 22
34 مضر ونافع علوم 53 22
35 علماء کی غلطی 55 22
36 عوام کی غلطی 56 22
37 علماء کی کوتاہی 59 1
38 علماء کو ہدایت 64 37
39 علم کی کیمیا 66 37
40 علم کی فضیلت 68 37
41 صحبت کا اثر 70 37
42 امراء کی کوتاہی 71 37
43 علم کی قدر 72 37
44 انتخاب طلباء 74 37
45 علم دین کی برکت 75 37
46 رفع اشکالات 77 37
47 مفید علم 82 37
48 کام کی باتیں 84 37
Flag Counter