لختے برد از دل گزرد ہر کہ ز پیشم
اب آگے دوسرا مصرع نہیں آتا تھا ۔ بہت پریشان ہوا مگر اگلا مصرع ہی نہ آیا ۔ ایک دن وہ اسی فکر میں بیٹھا ہوا تھا ایک خربوزہ بیچنے والا گزرا جس نے کسی شاعر سے ایک مصرع بنوا لیا تھا یا خود اسی نے بنا لیا تھا اور وہی مصرع صدی کی بجائے کہتا جارہا تھایعنی ع
من قاش فروشِ دلِ صد پارئہ خویشم
شاعر اس مصرع کو سنتے ہی پھڑک اٹھا اور دوڑا ہوا اس کنجڑہ کے پاس گیا کہ بھائی یہ مصرع تو تو مجھ کو دے دے اور جتنے روپے تو کہے مجھ سے لے لے کیونکہ میرا ایک مصرع ناتمام پرا ہوا ہے اس کا جوڑ یہی مصرع ہو سکتا ہے ۔ غرض پانچ سو روپے میں یہ بات طے ہوئی اور یہ شاعر پانچ سو روپے میں ایک مصرع خرید لایا ۔ اب اس کے پاس پورا شعر ہو گیا ؎
لختے برد از دل گزرد ہر کہ ز پیشم
من قاش فروشِ دلِ صد پارئہ خویشم
شاید آپ کی سمجھ میں مصرع خریدنے کا مطلب نہ آیا ہو گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مصرع تو میری طرف منسوب کر دیا کرنا ۔ اپنی طرف منسوب مت کرنا ۔ بس اتنی بات کے اس نے پانچ سو روپے دئیے تھے ۔ سو وجہ کیا تھی ؟ وہی قدر دانی۔ کیونکہ شاعر ہی اس کی قدر جان سکتا ہے ۔ تو صاحبو! قدر وہ چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ایک علمی نکتہ ہزار مال ودولت سے بہتر ہوتا ہے ۔
اس پر مجھے ایک اور حکایت یاد آئی ۔ دہلی میں احمد مرزا فوٹو گرافر ہیں ۔ فوٹو اتارنے میں یہ اپنے فن میں ماہر ہیں مگر حضرت مولانا گنگوہی ؒ سے بیعت ہونے کے بعد انہوں نے زندہ کی تصویر بنانے سے توبہ کر لی ہے ۔ وہ اپنا قصہ بیان کرتے تھے کہ ایک جنٹلمین میرے پاس آیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ کے پاس مہدی علی خاںکا فوٹو ہے یا نہیں ۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے اس سے کہہ دیا کہ بھائی اب تو میں نے اس سے توبہ کر لی ہے اور سب فوٹو تلف کر دئیے ہیں ۔ کہنے لگا شاید کوئی پڑا ہوا نکل آوے ۔ انہوں نے کہا ، تم اس ردّی میں تلاش کر لو شاید اس میں ہو ۔ اس نے ردّی میں تلاش کیا تو وہ فوٹو مل گیا جو نہایت صحیح فوٹو تھا ۔ اس نے پوچھا اس کی قیمت کیا ہے ؟ مرزا نے کہہ دیا کہ اب تو کچھ بھی نہیں ۔ اس نے کہا میں اس شخص کا فوٹو مفت نہیں لے سکتا کیونکہ یہ اس شخص کی نہایت توہین ہے ۔ یہ ایسا شخص ایسا نہیں جس فوٹو بلا قیمت لیا جائے ۔ احمد مرزا نے کہا کہ مجھے تو اس کی قیمت لینا جائز نہیں کیونکہ شرعاً یہ مال متقوم نہیں ۔ اس نے کہا ، پھر میں تو مفت نہ لوں گا۔ آپ اس کی قیمت نہ سمجھیں ، میری طرف سے ہدیہ سمجھ لیں اور یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا تو تیرہ روپے نکلے ۔ اس نے وہ سب ان کو دے دئیے اور کہا افسوس ہے اس وقت میری جیب میں اتنے ہی روپے تھے ورنہ میری نیت پچاس روپے دینے کی تھی اس وقت تو آپ اسی رقم کو ہدیۃً قبول کر لیجئے ۔ غرض بہت اصرار سے