مناظرے میں ہر فریق کو اپنی بات کا اونچا رہنا اور دوسرے فریق کی بات نیچا رکھنا مدنظر ہوتا ہے ۔ تو یہ صورت مطلقاً بھی اور خصوص ایسے ور پر نہایت سخت ہے کہ ایک فریق اسلام کی جانب کو کمزور کرنے کی کوشش کرے جس سے بعض دفعہ سلب ایمان کا اندیشہ ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ آج کل طبائع میں سلامتی نہیں رہی نیتیں درست نہیں ہیں پس ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس طرز میں نیّت کو درست رکھ سکیں ، ممکن ہے کہ کسی وقت کوئی شخص محض اپنی بات کی پچ کرنے لگے اور نفسانیت کی وجہ سے اسلام کی جانب کو کمزور کرنے لگے تاکہ سننے والے یہ کہیں کہ فلاں شخص نے بری زور دار تقریر کی اور اس کا انجام جو کچھ ہے ظاہر ہے ۔تیسرے غضب یہ ہے کہ کہ اس قسم کے مناظرہ میں بعض دفعہ عوام بھی شریک ہو جاتے ہیں جس میں بڑا اندیشہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ذہن میں فریق باطل کے دلائل بیٹھ جائیں اور اہل حق کی طرف سے جو اس کا جواب بیان کیا جائے وہ اس کی سمجھ میں نہ آوے یا جس طالب علم نے اہل اسلام کی طرف سے جواب دیا ہے اس کی تقریر اچھی نہ ہو تو اس عامی شخص کا ایمان اس صورت میں برباد ہو جائے گا ۔ اس لیے میرے نزدیک یہ طرز بالکل قابل ترک ہے بلکہ میرے نزدیک تو مناظرہ کے لے تعلیم وتعلم کی ضرورت نہیں ۔فطرت سلیم ہو تو انسان ہر باطل مذہب کا رد بہت آسانی سے کر سکتا ہے ۔
الٰہ آباد میں ایک رئیس تھے بالکل اَن پڑھ ، جو اپنے دستخط بھی نہ کر سکتے تھے ، بس ایک مہر بنوا لی تھی جب دستخط کرنا چاہتے ،مہر کر دیتے تھے ۔ ایک دفعہ وہ سواری پر سوار ہو کر جارہے تھے ۔راستہ میں ایک عیسائی کھڑا ہوا اپنے مزیب کی حقانیت بیان کر رہا تھا ۔ اپنے حق پر ہونے کی ایک دلیل اس نے یہ بھی بیان کی کہ دنیا میں عیسائی سب سے زیادہ ہیں ۔انجیل کے ترجمے بہت زبانوں میں ہو چکے یہں ۔ معلوم ہوا کہ اﷲ کے نزدیک ہم زیادہ مقبول ہیں ۔ جو ان کی اس قدر کثرت اور ترقی ہے ۔ان رئیس نے اپنی سواری روک کر پادری سے کہا کہ یہ تو کوئی دلیل حقانیت کی نہیں ۔آؤ ! ہم تم کو سٹیشن پر چل کر دکھائے دیتے ہیں کہ ریل گاڑی میں فسٹ کلاس کا درجہ ایک ہی ہوتا ہے اور تھرڈ کلاس بہت ہوتے ہیں ۔پس ہم مسلمان فسٹ کلاس ہیں اور تم عیسائی لوگ تھرڈ کلاس ہو ۔یہ جواب سن کر پادری مبہوت ہو گیا اور اس سے کچھ جواب نہ بن پڑا ۔
تو دیکھئے ایک اَن پڑھ آدمی نے پادری کو خاموش کر دیا ۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ مناظرہ کے لیے سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت نہیں البتہ طبیعت سلیم ہونی چاہئے۔ پھر ہر اعتراض کا جواب دے لینا آسان ہے پھر آج کل جس طرح مناظرہ کیا جاتا ہے سلف کا یہ طریقہ نہ تھا ۔قرآن میں جابجا کفار سے مناظرہ کیا گیا ہے مگر اس کا عجیب طرز ہے آج کل کی طرح تو تو میں میں نہیں ہے احادیث میں حضرات صحابہ کے مناظرے مذکور ہیں ان کا طرز یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بات کو بار بار دہرائے جاتا تھا ۔آخر دونوں میں سے ایک کہہ دیتا تھا