Deobandi Books

تعمیم التعلیم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

45 - 86
ہے تو گمراہی کی صفت اس میں پیدا کرتے ہیں اور اس میں کچھ اشکال نہیں کیونکہ گمراہی کا ارتکاب نقص ہے اس کا پیدا کرنا اور خالق ہونا نقص نہیں بدصورت ہوتا تو عیب ہے لیکن بدصورتوں کو پیدا کرتا عیب نہیں بلکہ یہ تو عین کمال ہے جس سے خالق کی قدرت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر قسم کی صورت بنانے پر قادر ہے انسان گناہ کرتا ہے کفر کرتا ہے یہ اس کے لیے عیب ہے کیونکہ اس کی نافرمانی میں کوی حکمت نہیں ہے ۔اور خدا تعالیٰ نے گناہ اور کفر کو جو پیدا کیا ہے اس میں کوئی نقص نہیںکیونکہ اس میں ہزاروں حکمتیں ہیں ۔
چنانچہ ایک حکمت تو یہ ہے کہ اگر حق تعالیٰ گناہ اور کفر کو پیدا نہ فرماتے تو کوئی شخص ان کا ارتکاب نہ کر سکتا ۔بلکہ سب کے سب ایمان اوراعمال صالحہ پر مجبور ہو جاتے اس صورت میں مخلوق کا امتحان نہ ہوسکتا ۔پس افعال سیئہ اور کفر کے پیدا کرنے میں ایک حکمت تو یہی ہے کہ اس میں مخلوق کا امتحان ہے کہ دیکھیں کون اپنے اختیار سے ایمان اور اعمال صالحہ کا ارتکاب کرتا ہے اور کون گناہ اور کفر کو اختیار کرتا ہے ۔انسان جس قسم کے افعال کا قصد کرتا ہے حق تعالیٰ سب کو پیدا کر دیتے ہیں ۔
اور ایک حکمت جس کو صوفیائے کرام سمجھے ہیں یہ ہے کہ اس سے اسماء کا ظہور ہوتا ہے ۔ایمان اور اعمال صالحہ سے اسم ہادی کا ظہور ہوتا ہے اور کفر واعمال سیئہ سے اسم مضل کا ظہر ہوتا ہے اور حق تعالیٰ کی یہ دونوں صفتیں ہیں ہادی بھی اور مضل بھی ۔اب تو آپ کی سمجھ میں آگیا کہ خالق کفر وخالق سیئات ہونا نقص نہیں 
صاحبو ! آفتاب کے لیے یہ کمال ہے کہ وہ چاند کو بھی روشنی دیتا ہے اور آئینہ کو بھی اور گہورے (گندگی کا ڈھیر، اروڑی) کو بھی اس کی روشنی پہنچتی ہے لیکن گہورے کی بدبو اور نجاست آفتاب تک نہیں پہنچتی ۔ وہ اسی طرح پاکیزہ اور شفاف ہے ۔ناپاکی خود اسی کی ذات تک رہتی ہے آفتاب تک اس کا اثر نہیں جاتا ۔اسی طرح خدا نے گناہ اور کفر کو بھی وجود دیا ہے لیکن ان کی نجاست کا وہاں کوئی اثر نہیں پہنچتا ۔ اس کے لیے یہ بھی کمال ہے کہ اس نے جہاں ایمان اور اعمال صالحہ کو پیدا کیا ہے وہاں کفر اور اعمال سیئہ کو بھی پیدا کر دیا ہے اسی کو مولانا فرماتے ہیں   ؎
کفر ہم نسبت بخالق حکمت ست 
ور بما نسبت کنی کفر آفت ست
عارف شیرازی فرماتے    ؎
در کارخا نۂ عشق از کفر ناگزیر است
آتش کرا بسوزد گر بولہب نباشد
مطلب یہ ہے کہ اگر ابولہب وغیرہ نہ ہوں توصفت قہرکا ظہور کس پر ہوتا۔اور کارخانہ عشق سے مراددنیا ہے کیونکہ منشااس عالم کے ظہور کا عشق ہی ہے جس کی طرف اس جملہ میں اشارہ ہے ۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 تمہید 1 1
3 علم سحر 1 2
4 ومن شر الننفّٰثٰت فی العقد 2 2
5 نیت کا اثر 2 2
6 علت اور شریعت 6 2
7 انما البیع مثل الربوا 7 2
8 اصول شریعت 8 2
9 فاعتبرو ایا اولی الابصار 9 2
10 عجب وکبر 11 2
11 عقلی علت بعض لوگ 12 2
12 حکمتِ احکام 15 2
13 نسبت مع اﷲ 17 2
14 حرمت کا مدار 18 2
15 بے وضو نماز 20 2
16 مولوی کی تعریف 21 2
17 بسم اﷲ پڑھنا 22 2
18 نفع کی چیز 24 2
19 سفلی وعلوی عمل 24 2
20 توجہ ومسمریزم کی حقیقت 25 2
21 علوی عمل کی حدود 28 2
22 سحر کی تاثیر 29 1
23 کشف کے خطرات 31 22
24 تعلیم نسواں کی ضرورت 32 22
25 عجائب پرستی 34 22
26 غلو فی الدین 35 22
27 عوام کا اعتقاد 36 22
28 واعظین کا مذاق 37 22
29 مجذوب اور سالک کا فرق 42 22
30 کاملین کے کمالات 43 22
31 سحر کے اثرات 46 22
32 علم محمود 47 22
33 مناظرے کی خرابیاں 48 22
34 مضر ونافع علوم 53 22
35 علماء کی غلطی 55 22
36 عوام کی غلطی 56 22
37 علماء کی کوتاہی 59 1
38 علماء کو ہدایت 64 37
39 علم کی کیمیا 66 37
40 علم کی فضیلت 68 37
41 صحبت کا اثر 70 37
42 امراء کی کوتاہی 71 37
43 علم کی قدر 72 37
44 انتخاب طلباء 74 37
45 علم دین کی برکت 75 37
46 رفع اشکالات 77 37
47 مفید علم 82 37
48 کام کی باتیں 84 37
Flag Counter