وواجبات بدون نیت کے صحیح نہیں ہوتے ۔
خلاصہ یہ کہ مقصود سے پہلے ذریعہ کو دیکھ لینا ضروری ہے ۔اگر ذریعہ جائز ہے مثلاً اسماء الٰہی سے استعانت ہو تو اس صورت میں تعویذ عملیات کو جائز کہا جائے گا اور اگر مقصود ناجائز ہے تو ان کو حرام کہا جائے گا او راگر ذریعہ ہی حرام ہو ۔جیسے استعانت بالشیاطین تو اب مقصود چاہے کیسا ہی ہو وہ حرام ہی رہے گا ۔اور اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی شخص نماز کے لئے لوگوں کو جمع کرنا چاہے اور اس غرض کے لیے ناچ کرائے تاکہ ناچ کے شوق میں سب آجائیں اور نماز پڑھ لیں ۔تو مقصود اگرچہ بہت محمود ہے مگر چونکہ اس کے لیے حرام کو ذریعہ بنایا گیا ہے ۔اس لیے اس صورت کو حرام ہی کہا جاوے گا ۔سو آپ نے دیکھا کہ نماز باوجودیکہ حق تعالیٰ کو محبوب ہے مگر اس ک لیے بھی جب حرام کو ذریعہ بنایا گیا تو اس کو شریعت حرام ہی کہے گی ۔یہاںسے ان لوگوں کی غلطی بھی معلوم ہوگئی جو تعویذ وعملیات کو نفع رسانی کے موقع میں مطلقاً جائز سمجھتے ہیں گو اس مین شیاطین ہی سے استعانت ہو اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ صاحب ہم نے تو مخلوق کو نفع پہنچانے کے لیے کیا ہے پھر اس میں کیا خرابی ہے ؟ میںکہتا ہوں کہ نماز کے مقابلہ میںدنیوی نفع کوئی چیز نیہں ہے ۔دنیا حق تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہے اور نماز محبوب ہے ۔جب نماز کے لیے حرام کو ذریعہ بنانا جائز نہیں تو دنیوی نفع کے لیے شیاطین سے استعانت کیونکر جائز ہوگی ۔
مسلمان کا مذاق تو یہ ہونا چاہئے کہ ہر کام میں سب سے پہلے یہ دیکھے کہ اس سے خدائے تعالیٰ راضی ہیں یا نہیں ۔ جس کام میں خدا تعالیٰ ناراض ہوںبالکل ہیچ ہے ۔چاہے اس میں دنیوی نفع کتنا ہی ہو ۔ مسلمانوں کے واسطے خدا کی رضا سے زیادہ کوئی چیز نہیں ۔
غور کیجئے کہ اگر کوئی محبوب اپنے محبوں کے دھولیں مارتا ہو اور نافرمانوں کو روپے دیتا ہو تو اس وقت عاشق کیا چاہے گا ۔یقینا عاشق محبوب کی نافرمانی روپے حاصل کرنے کے لیے کبھی گوارہ نہ کرے گا ۔بلکہ خوشی سے دھولیں کھانا پسند کرے گا ۔کیونکہ محبوب کی رضا اسی میں ہے اسی طرح خدا کا محب دنیوی نفع نقصان کی پروا خدا کی رضا کے سامنے کبھی نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مذاق یہ ہوتا ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں ؎
ناخوش تو خوش بود بر جان من
دل فدائے یار دل رنجان من
ہر کجا دلبر بود خرم نشیں
فوق گردوں ست نے قعر زمیں
ہر کجا یوسف رخے باشد چو ماہ
جنت ست آں گرچہ باشد قعر چاہ