ہے وہ یہ کہ بد دعا کے وقت دو حالتیں ہو سکتی ہیں ۔ایک یہ کہ محض سرسری طور پر حق تعالیٰ سے درخواست کی تھی اور اپنے دل اور خیال کو اس کے ہلاک کرنے کی طرف متوجہ نہیں کیا ۔اس صورت میں اگر وہ شخص ہلاک ہو جائے تو یہ بد دعا کرنے ولا قاتل تو نہ ہوگا کیونکہ بد دعا سے ہلاک ہونے میں اس کا دخل نہیں بلکہ اس میں محض حق تعالیٰ سے درخواست ہے اور حق تعالیٰ اپنی مشیت سے اس کو ہلاک کرنے والے ہیں ۔پس یہ شخص قائل تو نہیں ۔البتہ وہ شخص اگر بددعا کے قبل تھ اتب تو گناہ بھی نہیں ہوا اور اگر بددعا کے قابل نہ تھا تو قتل کا گناہ تو نہیں ہوا مگر بددعا کرنے کا گناہ ہوا ۔اس سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے ۔
اور ایک صورت بددعا کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے درخواست کرنے کے ساتھ اپنے دل کو بھی اس کے ہلاک کرنے کی طرف متوجہ کیا اور تصرف سے کام لیا ۔اس صورت میں یہ تفصیل یہ ہے کہ اگر اس شخص کو تجربہ سے اپنا صاحب تصرف نہ ہونا معلوم ہے مثلاًبارہا تصرف کا قصد کیا مگر کچھ نہیں ہوا ۔اس وقت بھی قتل کا گناہ نہیں ہوا ۔البتہ اگر وہ شرعاً قابل قتل نہ تھا تو اس کی ہلاکت کی تمنا کا گناہ ہوگا ۔اور اگر تجربہ سے اپنا صاحب تصرف ہونا معلوم ہے تو یہ شخص قائل ہے ۔کیونکہ تلوار سے قتل کرنا اور تصرف سے قتل کرنا برابر ہے ۔صرف اتنا فرق ہے کہ وہ قتل عمد ہے اور یہ قتل شبہ عمد۔
اب دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ شخص جس کے ہلاک کرنے کے واسطے تصرف کیا گیا ہے قتل کا مستحق ہے یا نہیں ؟ اگر مستحق قتل تھا تو صاحب تصرف قاتل تو ہوا مگر گناہ نہیں ہوا کیونکہ تصرف کا استعمال اپنے محل میں ہوا اور اگر مستحق قتل نہ تھا تو صاحب تصرف کو قتل کا گناہ ضرور ہوا ۔اس صورت میں اس کو علاوہ دیت کے ایک غلام کا آزاد کرنا اور اس کی وسعت نہ ہو تو دو مہینے کے روزے رکھنے چاہئیں اور توبہ واستغفار کرنا چاہئے ۔
اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ توجہ کی کیا حقیقت ہے ؟ یاد رکھو کسی کو توجہ سے ہلاک کرنا یاضرر پہنچانا علی الاطلاق جائز نہیںبلکہ اس میں وہ تفصیل ے جو میں نے بیان کی ،مگر آج کل تو اس کو کمال سمجھا جاتا ہے ۔کسی کو بھی التفات نہیں ہوتا کہ اس میں بعض دفعہ گناہ بھی ہوتا ہے لوگ یوں سمجھتے ہیںکہ ہم نے تو محض توجہ کی تھی قتل کہاں کیا؟ خوب سمجھ لو کہ توجہ سے قتل کرنا بھی ویسا ہی ہے جیسے تلوار سے قتل کرنا ۔
اسی لیے ایسے مواقع میں توجہ سے بچنا چاہئے اور اگر کوئی شخص توجہ کا مشاق بھی نہ ہو اسے بھی ایسے مواقع میں توجہ سے کام نہ لینا چاہئے ،کیونکہ بعض لوگ فطرۃً صاحب توجہ ہوتے ہیںگو ان کو خبر نہ ہو تو ممکن ہے تم اپنے آپ کوصاحب تصرّف نہ سجھتے ہو مگر واقع میں تم صاحب تصرف ہو ۔تو اگر اس حالت میں تم نے کسی کو ضرو پہنچانے کاقصد کیا اوروہ اس کا مسحق نہ ہوااورضر پہنچ گیا تو تم کو گناہ ہو گا۔اوریہی حکم عملیات سے ہلاک کرنے کاہے۔