ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
کتاب سے مانگ نکالنے میں اختیار کیا گیا اِسی بناء پر اَزار اور پائجامہ میں ٹخنے کھولنے کا حکم دیا گیا تاکہ اہل ِ تکبر سے تمیز ہوجائے۔ اِسی طرح بہت سے احکام اسلام میں پائے جاتے ہیں' جن کے بیان میں بہت طول ہے اور جن میں یہودیوں سے، نصارٰی سے، مجوسیوں سے،مشرکوں سے امتیازاور علیحدہ گی کا حکم کیا گیا ہے اور اِن کے ذریعہ امتیاز بنایا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مردوں کو عورتوں سے بھی علیحدہ یونیفارم میں دیکھنا ضروری قراردیا گیا ہے۔ عورتوں کے یونیفارم میں رہنے والے مرد، مردوں کے یونیفارم میں رہنے والی عورت پر لعنت کی گئی ہے، اِنہی امور سے عربی میں خطہ رائج کرنا بھی ہے، انہی امور میں مونچھ کا منڈوانا، کتروانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا بھی ہے۔ خالفوا المشرکین وفرو اللحی واحفوالشوارب (مسلم ، بخاری) جزو الشوارب ارخواللحی وخالفوا المجوس (مسلم) من لم یا خذ من شاربہ فلیس منا۔ (ترمذی و نسائی ) اِن روایات کے مانند اور بہت سی روایتیں کتب ِ حدیث کے اندر موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں مشرکین، اور مجوسی ڈاڑھی منڈواتے تھے اور مونچھیں بڑھا تے تھے جیسا کہ آج عیسائی اور ہندو قوم کررہی ہے اور یہ امران کے مخصوص یو نیفارم میں سے تھا، بنا بریں ضروری تھا کہ مسلمانوں کو دُوسرے کے یونیفارم کے خلاف حکم کیا جائے نیز یہ معلوم ہوگیا کہ لوگوں کا ڈاڑھی منڈوانے کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ عمل زمانۂ عرب کے رواج کی وجہ سے ہے جو کہ اُن میں جاری تھا کہ ڈاڑھیاں بڑھاتے تھے اور مونچھیں کٹا تے تھے غلط ہے، بلکہ اُس زمانے میں بھی مخالفین اسلام کا یہ شعار تھا جس طرح اِس قسم کی روایاتِ مذکورہ بالا سے یہ معلوم ہوا کہ یہ یونیفارم مشرکین اور مجوس کا تھا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کوان کے خلاف یونیفارم دیا جائے تاکہ تمیز کامل ہوجائے۔ اِسی طرح حدیث عشرة من الفطرة قص الشارب واعفاء للحیة والاستیاک الخ (ابو داؤد شریف) وغیرہ بتلا رہی ہے کہ خاص خاص مقربین وانبیاء علیہم السلام کے یو نیفارم میں سے مونچھوں کا کتروانا اور ڈاڑھی کو نہ منڈوانا ہے کیونکہ فطرت اِنہی اُمور کو اِس جگہ میں کہا گیا ہے جو کہ انبیاء علیہم السلام کے شعار میں سے تھے جیسا کہ بعض روایتوں میں لفظ ِ فطرت کے بجائے من سنن المرسلین یااِس کے ہم معنی الفاظ موجود ہیں ۔خلاصہ یہ نکلا کہ یہ خاص یونیفارم اور شعار ہے جو کہ مقربان ِ بارگاہ الو ہیت کا ہمیشہ سے