ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
رمضان المبارَک کے عشرہ ٔاَخیرہ کے اَحکام ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ ) رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام کیا جائے : وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِیْزَرَہ وَاَحْیٰی لَیْلَہ وَاَیْقَظَ اَھْلَہ۔(مشکٰوة ص ١٨٢ بحوالہ بخاری ومسلم) ''حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ روایت فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو حضور ِاقدس ۖ اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھروالوں کو (بھی عبادت کے لیے) جگاتے تھے۔'' تشریح : ایک حدیث میں ہے کہ محبوب رب العالین ۖ رمضان کے آخری دس دنوں کے اندر جتنی محنت سے عبادت کرتے تھے، اِس کے علاوہ دُوسرے ایام میں اِتنی محنت نہ کرتے تھے۔ (مسلم شریف) حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا نے یہ جو فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ ۖ تہبند کس لیتے تھے۔ علماء نے اِس کے دو مطلب بتائے ہیں: ایک یہ کہ خوب محنت اور کوشش سے عبادت کرتے تھے اور راتوں رات جاگتے تھے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اُردو کے محاورے میں محنت کا کام بتانے کے لیے بولا جاتا ہے کہ ''خوب کمر کس لو'' اور دُوسرا مطلب تہبند کس کر باندھنے کا یہ بتایا کہ رات کو بیویوں کے پاس لیٹنے سے دُور رہتے تھے کیونکہ ساری رات عبادت میں گزرجاتی تھی اور اعتکاف بھی ہوتا تھا اس لیے رمضان کے آخری عشرہ میں میاں بیوی والے خاص تعلق کا موقع نہیں لگتا تھا۔ حدیث کے آخر میں جو اَیْقَظَ َاھْلَہ فرمایا اُس کا مطلب یہ ہے کہ یہ رمضان کے اخیر عشرہ میں حضور اقدس ۖ خود بھی بہت محنت اور کوشش سے عبادت کرتے تھے اور رات بھر بیدار رہتے تھے اَور گھر والوں کو بھی اِس مقصد کے لیے جگاتے تھے۔ بات یہ ہے کہ جسے آخرت کا خیال ہو، موت کے بعد کے حالات کا یقین ہو، اَجر و ثواب کے لینے کا لالچ ہو ،وہ کیوں نہ محنت اور کوشش سے عبادت میں لگے گا، پھر جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے اہل و عیال کے لیے بھی پسند کرنا چاہیے۔