ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
یونیفارم رہا ہو اور پھر دُوسری قومیں اِس کے خلاف کو اپنا یو نیفارم بنائے ہوئے بھی ہیں جو کہ اللہ کے قانون کوتوڑنے والی اور اُس سے بغاوت کرنے والی ہیںاِس لیے دو وَجہ سے اِس یونیفارم کو اختیار کرنا ضروری ہوا۔ علاوہ اَزیں ایک محمدی کو حسب ِ اقتضائے فطرت اور عقل لازم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آقا کا سارا رنگ ڈھنگ، چال چلن، صورت سیرت اور فیشن کلچر وغیرہ اپنائے اور اپنے محبوب آقا کے دُشمنوں کے فیشن اور کلچر سے پرہیز کرے، ہمیشہ عقل اور فطرت کاتقاضا یہی رہا ہے اور یہی ہر قوم اور ملک میں پایا جاتا ہے۔ آج یورپ سے بڑھ کر رُوئے زمین پر حضرت محمد ۖ اور مسلمانوں کا دُشمن کون ہے؟ واقعات کو دیکھیے! اِس بناء پر بھی جواُن کی خصوصیات اور فیشن ہیں ہم کو اِس سے انتہائی نفرت ہونا چاہیے، خواہ وہ کرزن فیشن ہو یا گلیڈ اسٹون فیشن ، خواہ فرنچ فیشن ہو یا امریکن ،خواہ وہ لباس سے تعلق رکھتاہو یا بدن سے ،خواہ وہ تہذیب سے ہو یا عادات سے، ہر جگہ اور ہر ملک میں یہی امر طبعی اور فطری شمار کیاگیا ہے کہ دوست کی سب چیزیں پیاری معلوم ہوتی ہیں اور دُشمن کی سب چیزیں مبغوض اور اَوپری! بالخصوص جو چیزیں دُشمن کی خصوصی شعار ہو جائیں۔ اِس لیے ہماری جدو جہد اِس میں ہونی چاہیے کہ ہم غلامان ِ رسول ۖ اُن کے فدائی بنیں نہ کہ غلامان ِ کرزن و ہارڈنگ و فرانس وامریکہ و غیرہ۔ باقی رہا امتحان مقابلہ یا ملازمتیں یا آفس کے ملازموں کے طعنے وغیرہ تو نہایت کمزور عذر ہیں، سکھ امتحان ِ مقابلہ بھی دیتے ہیں، چھوٹے بڑے عہدوں پر بھی مقرر ہیں اپنی وردی پر مضبوطی سے قائم ہیں، کوئی اُن کو ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتا باجود قلیل التعداد ہونے سب سے زیادہ ملازمتیں اور عہدے لیے ہوئے غرا رہے ہیں، اِسی طرح ہندؤں میں بھی بکثرت ایسے افراد اور خاندان پائے جاتے ہیں۔ ٭ بڑوں کا مقولہ ہے : تعاشروا کالاخوان وتعاملوا کالاجانب یعنی میل جول اُٹھنا بیٹھنا بھائیوں کی طرح کرو اور معاملہ اَجنبیوں کا طرح کرو، چیزوں میں شرمانا اور مصارف سے خبر نہ کرنا اصول معاملہ اور اصول ِ تجارت دونوں کے خلاف ہے۔ ٭ لڑکیوں کے لیے سسرال جانا زندگی کا (ایک) دَور ہوتاہے، سمجھدار لڑکیوں کے لیے نہایت سمجھ اور صبر و سکون کو عمل میں لانا اور قدم پر قدم پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ زندگی وہاں وبال ِجان بن جاتی ہے، اِس کا بڑاسبب نئے نئے لوگوں سے سابقہ پڑنا ہے۔