ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
سبّ و شتم پر ہے اور اُن کے اجتہادی مسائل کی بنیاد ضعیف حدیثوں پر ہے۔ اُنہوں نے ضعیف حدیثوں کو قابل عمل بلکہ حجت قرار دینے کی بہت کوشش کی ہے۔ اِس موضوع پر اُنہوں نے اپنے مجموعہ فتاوی میں تقریباً ایک سو پچیس صفحات کا طویل مضمون بھی لکھا ہے اس طرح ضعیف حدیثوں سے بھی اُنہوں نے جو مسئلہ نکالااُسے بھی جھگڑے اور تفریق کی بنیاد بنایا ہے۔ فاضل بریلوی کی فقاہت کی ایک مثال : بہت سے مسائل میں اُنہوں نے اجتہاد بھی کیا ہے اَور اُس میں اُن سے زبر دست غلطیاں ہوتی رہی ہیں لیکن اُنہوں نے ہمیشہ اپنی غلطی ماننے کے بجائے اصلاح کرنے والوں کا مذاق اُڑایاہے۔ مثلاً اُن کی سمجھ میں یہ آیا کہ نوٹوں میں سود نہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ کاغذ ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنا ایک روپیہ کا کاغذایک ہزار میں بیچ دے تو بالکل جائز ہے کیونکہ ہر آدمی کو اپنی چیز کی قیمت لگانے کا اختیار ہے۔ اِس طرح اُنہوں نے نوٹوں میں سود کے جواز کا فتوی صادر کردیا۔ اُن کے اِس اجتہاد پر جب اعتراض ہوا تو اُنہوں نے ایک لمبا رسالہ لکھ ڈالا اُس کا نام '' کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاھِمِ فِیْ اَحْکَامِ قِرْطَاسِ الدَّرَاھِمِ '' رکھ دیا اَور اِس میں ہر اُس بزرگ کا مذاق اُڑایا جس نے اُن کے اِس مسئلہ کو غلط کہا اَور اپنے مذکورہ بالا دلیل پر جمے رہے۔ اُنہیں فقہ کی عبارتیں بہت یاد تھیں وہ سب لکھ ڈالیں مگروہ فقیہ نہ تھے۔ اُن کا علم غیر اُصولی تھا، مطالعہ سے بڑھا تھا اور طبیعت میں بے حد ضد اَور عناد تھا۔ اِس لیے اپنی غلطی پر متنبہ نہ ہوئے۔آپ جانتے ہیں کہ پانچ روپیہ کے نوٹ پر بھی یہ عبارت ہوتی ہے : ''بینک دولت پاکستان پانچ روپیہ حامل ِہذا کو مطالبہ پر اَدا کرے گا حکومت ِ پاکستا ن کی ضمانت سے جاری ہوا پھر گورنر بینک دولت پاکستان کے دستخط ہوتے ہیں۔'' تو یہ کاغذ وہ کاغذ نہیں جس پر فاضل بریلوی نے قیاس کیا کہ بلا کر اہت اپنے کاغذ کو چاہے ایک ہزار میں بیچ دے اُسے اختیار ہے۔ یہ حکومت کا کاغذ ہے ،مملکت کا بیت المال (اسٹیٹ بینک) اِس کا جاری کرنے والا ہے۔ا ِس کے پانچ کے نوٹ سے پانچ کااَور ہزار کے نوٹ سے ہزار ہی کا نفع حاصل کر سکتے ہیں اَور جب وہ ضمانت سے اِنکار کردے نوٹ کینسل کردے تو ہزار کے نوٹ بھی بیکار ہوجاتے ہیں۔ پانچ روپیہ کا نوٹ ہو یا ایک اَرب کے نوٹ ہوں جب کسی بیرونی ملک میں چلے جاتے ہیں تو بین الاقوامی بنک کے ذریعہ اِتنے نوٹوں