ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
قسط : ا قومیت و صوبا ئیت اور زبان ورنگ کے تعصب کی اصلاح ( حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم،کراچی ) .زبان ورَنگ کا اِختلاف اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے : اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا : اِنَّمَا الْمُؤْمِنْوُنَ اِخْوَة۔ (سورة الحجرات ١٠) سب مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔کوئی افریقہ سے آیا ہے کوئی لندن سے کوئی بلوچستان سے کوئی پنجاب سے کوئی سندھ سے کوئی کہیں سے آیا ہے کوئی کہیں سے لیکن میں سب کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَمِنْ اٰیَاتِہ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ (سورة الروم آیة ٢٢) زبان ورنگ کا اختلاف میری نشانیاں ہیں، اگر کوئی اللہ کی نشانی کو حقیر سمجھے تو اُس کی بہت بڑی نالائقی ہے، وہ بڑا بے ہودہ آدمی ہے۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ زبان و رنگ کے اختلاف سے ایک دُوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں۔ لوگ گناہ کی حقیقت کو سمجھتے نہیں، اگر کوئی اللہ کی نشانی کو نہیں مانتا اِنکار کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔ کوئی پنجابی بولتا ہے، کوئی سندھی بولتا ہے تو اُردو زبان والے ہنستے ہیں۔ اُردو اچھی زبان تو ہے لیکن اِس کو تمام زبانوں سے اچھا وافضل سمجھنا جائز نہیں اور کسی زبان کو حقیر سمجھنا جائز نہیں۔انگریزی زبان کو بھی حقیر نہ جاننا چاہیے، اگر کوئی انگریز مسلمان ہوجائے تو کیا بولے گا؟ انگریزی ہی تو بولے گا۔ پس جتنی زبانیں ہیں سب کو اچھا سمجھو۔ اگر تم لندن میں پیدا ہوتے تو انگریزی بولتے،پنجاب میں پیدا ہوتے تو پنجابی بولتے، سندھ میں پیدا ہوتے تو سندھی بولتے لہٰذا جو زبان تمہاری ہوتی کیا اُس کو حقیر سمجھتے؟ لہٰذا کسی زبان کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ہم بنگلہ دیش گئے تو کبھی کسی بنگلہ دیشی کو حقیر نہیں سمجھا، اِسی وجہ سے سب بنگلہ دیشی عاشق ہوگئے کیونکہ مجھ میں عصبیت نہیں ہے، عصبیت کا نہ ہونا یہ بات بہت کم پاؤ گے۔ میرے کتنے دوست پنجاب کے ہیں لیکن اُن کی پنجابی سے مجھے مزا آتا ہے۔