ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ( مرتب : حضرت مولانا ابوالحسن صاحب بارہ بنکوی ) ٭ ہر قوم نے جب بھی ترقی کی ہے تو اِس کی کو شش کی ہے کہ اُس کا یونیفارم اُس کا کلچر، اُس کا مذہب، اُس کی زبان دُوسروں پر غالب اور دُوسرے ممالک و اقوام میں پھیل جائے آریہ قوم کی تاریخ پڑھو، فارسیوں کے کارنامے دیکھو، کلدانیوں اور عریانیوں کی تاریخ کا مطالعہ کرو۔ یہودی اور عیسائیوں کے انقلاب کو غور سے دیکھو، دُور کیوں جاتے ہو عربوں اور مسلمانوں کے اُلو العزم اعمال آپ کے سامنے موجود ہیں، زبان عربی صرف ملک عرب کی زبان تھی، عراق، سیریہ، فلسطین، مصر، سوڈان، الجیریا، تیونس، مراکش، فارس، صحرائے لیبیا و غیرہ میں کوئی شخص نہ عربی زبان سے آشنا تھانہ مذہب ِ اسلام سے نہ اسلامی رسم و رواج سے، مگر عربوں نے اُن ملکوں میں اِس طرح اپنی زبان، اپنا کلچر اپنی تہذیب جاری کردی کہ وہاں کے غیر مسلم اقوام آج بھی اسلامی یونیفارم، اسی کلچر، اسی تہذیب اور اسی زبان کو اپنی چیزیں سمجھتے ہیں، اسرائیلی قومیں، کلدانی نسلیں، عبرانی خاندان ترکی برادریاں، بربری ذاتیں وغیرہ وغیرہ ان دیار میں سب کی سب عربوں میں منہضم ہو گئی ہیں، اگر کسی کو اپنی ذات یا خاندان کا علم بھی ہے تو وہ بھی مثل ِ خیال و خواب کے ہے، سب کے سب اپنے کو عرب سمجھتے ہیں اور عربیت ہی کے دعویدار ہیں ۔ انگلستان کو دیکھیے یہ اپنے جزیرہ سے نکلتا ہے، کینڈا، آسٹریلیا، امریکہ، نیوز ی لینڈ، کیپ کالونی، ساؤتھ افریقہ وغیرہ وغیرہ میں پوری جد و جہد کر کے اپنی زبان ،اپنا کلچر ،اپنی تہذیب، اپنا مذہب، اپنا لباس وغیرہ پھیلادیتا ہے۔ جو لوگ اس کے مذہب میں داخل نہیں ہوتے وہ بھی اُس کے تہذیب و فیشن وغیرہ میں منجذب ہو جاتے ہیں، اور یہی حال ہندوستان میں روز افزوں ترقی پزیر ہے، ہندو قوم اسی سیلاب کو دیکھ کر مردہ زبان سنسکرت جس کو تاریخ کبھی کسی طرح عام زبان ہندوستان کی یا کم ازکم آریہ نسل کی نہیں بتا سکتی، آج اُس کی