ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
جو '' بَا '' داخل ہے یہ اَتٰی یَأْتِیْ جو لازم تھا اُس کو متعدی کر رہا ہے۔ کیا مطلب ہوا؟ کہ ہمارے دیوانے خود سے نہیں بنتے ، دیوانے بنائے جاتے ہیں۔ اِس لیے یہ ''با'' یہ معنی پیدا کررہا ہے کہ ہم لائیں گے اپنے عاشقوں کی ایک جماعت اور قوم جس کو ہم اپنا دیوانہ بنائیں گے۔ محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی جسے خود یار نے چاہا اُسی کو یادِ یار آئی اللہ جس کی قسمت میں اپنا عشق اور اپنی محبت رکھتا ہے وہی اللہ کا دیوانہ ہوتا ہے جس کو اللہ پیار کرتا ہے وہی اللہ کو پیار کرتا ہے، یہ بہت خوش نصیب لوگ ہیں یہ بڑی قسمت والے ہیں بادشاہوں کو یہ قسمت نصیب نہیں ہے، اگر اللہ کو بھولے ہوئے ہیں تو بادشاہ زندگی بھر اپنی بادشاہت میں پریشان ہیں۔ تاج ِ شاہی سر پر ہے اور سر میں درد ِ سر ہے۔ شاہوں کے سروں میں تاج ِ گراں سے دَرد سا اکثررہتا ہے اور اہلِ صفا کے سینوں میں اِک نور بہتا ہے اللہ والوں کے سینوں میں نور کا دریا بہہ رہا ہے اَور شاہوں کے سروں میں اپوزیشن کے ڈنڈے سے درد ِ سر ہو رہا ہے۔ تاج ِ شاہی سر پر اور خود سلطنت کی کرسی پر اور کرسی کے نیچے سے اپو زیشن کے ڈنڈے کا فکر ہر وقت پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ عاشقوں کی قومیت : دوران ِ درسِ مثنوی اِرشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ نازل کر کے بتادیا کہ میں اپنے عاشقوں سے محبت کرتا ہوں اور یہ مجھ سے محبت کر تے ہیں لیکن قدم اللّٰہ تعالٰی محبتہ علٰی محبة عبادہ لیعلموا انھم یحبون ربھم بفیضان محبة ربھم اللہ نے اپنی محبت کو اپنے بندوں کی محبت سے پہلے بیان کیا تاکہ میرے بندے جان لیں کہ اُن کو جو محبت میرے ساتھ ہے یہ میری ہی محبت کا فیض ہے۔ محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی جسے خود یار نے چاہا اُسی کو یادِ یار آئی