ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
آگے ......... آپ یہ پوچھیے: آپ یہ پوچھیے کہ اَذان کے وقت کیا کرنا چاہیے؟ جناب ِ رسول اللہ ۖ نے کیا بتلایا ہے؟ بس اُسی پر عمل کریں۔ حدیث ِپاک میں صاف آتا ہے کہ جناب ِ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا : جب مؤذن کو اَذان دیتے سنو تو مؤذن کے کلمات تم بھی کہتے رہو ثُمَّ صَلُّوْا عَلَیَّ پھر مجھ پر دُرود بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک دفعہ درُود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اُس پر دَس بار رحمت اُتار تے ہیںپھر میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ کی دُعا مانگو وسیلہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں ایک ہی بندے کے لیے ہوگا اور مجھے اُمید ہے کہ میں وہ ہوں فَمَنْ سَأَلَ لِیَ الْوَسِیْلَةَ حَلَّتْ عَلَیْہِ الشَّفَاعَةُ جو میرے لیے وسیلہ کی دُعا کرے گا اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگی۔ (مشکوة شریف ص ٦٤ بحوالہ مسلم شریف ) یعنی اَذان کے بعد دُرود شریف پڑھے پھر اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ ۔ الخ کی دُعاء پڑھے ۔جناب ِ رسول اللہ ۖ کے تعلیم کردہ طریقہ پر عمل کریں اور بس۔ بدعت کا نقصان : بریلوی علماء بات بات پر یہ کہہ کر کہ اِس میں حرج ہی کیا ہے بدعات کو فروغ دیتے ہیں حالانکہ اِس سے تو جناب ِ رسول اللہ ۖ کی بتلائی ہوئی عبادت کی شکل بدل جائے گی اَور دین کی کسی چیز کی شکل بدلنے کا اختیار آقا ۖ کو تھا ہم غلاموں کو نہیں۔ ہمیں تو صرف آقا ۖ کی پیروی کا حکم ہے کہ آنکھ میچ کر صرف اتباع ِ سنت کرتے جائیں تو بیڑا پار ہوجائے گا۔ آخر آپ دیکھیے کہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی دو رکعتوں کے قعدہ میں التحیات پڑھنے کے بعد دُرود پڑھنا منع ہے بلکہ اگر کسی نے پڑھ لیا تو اِمام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُس نے غلطی کی اُسے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔ اگر آپ امام اعظم ابو حنیفہ سے پوچھیں گے کہ اِس میںحرج ہی کیا ہے اور کونسی حدیث میں آیا ہے کہ پہلے قعدہ میں دُرود شریف مت پڑھنا تو اِمام اعظم یہی جواب دیںگے کہ سرکار ِ دو عالم ۖ نے اور صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا اِس لیے میں منع کرتا ہوں۔ اسی ایک تازہ بدعت کی مثال سے ہی سے آپ نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ افضل شخص وہی ہے جو پرانے طے شدہ مسائل پرعمل کرے اور سنت پر قائم رہے اور دُوسروں کو بھی سنت پر عمل کی دعوت دے اَور وہی