ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
گئے۔اپنا مہر پا چکی ہو تب بھی دو ہزار روپے دینے پڑیں گے اور اگر مہر اَبھی نہ پایا ہو تب بھی دینے پڑیں گے اور مہر بھی نہ ملے گا کیونکہ وہ خلع کی وجہ سے معاف ہو گیا۔ مسئلہ : اگر خلع مہر پر کیا یعنی مرد نے یوں کہا میں نے تجھ سے مہر پر خلع کیا اَور عورت نے قبول کر لیا تو اگر مہر اَبھی وصول نہیں کیا تھا تو ساقط ہوجائے گا اَور اگر وصول کر چکی تھی تو واپس لُٹانا پڑے گا۔ مسئلہ : خلع میں اگر قصور مرد کا ہو تو مرد کو روپیہ اور مال لینا یا جو مہر مرد کے ذمّہ ہے اُس کے عوض میں خلع کرنا بڑا گناہ ہے۔ اگر کچھ مال لے لیا تواُس کو اپنے خرچ میں لانا بھی حرام ہے۔ اگر عورت ہی کا قصور ہو تو جتنا مہر دیا ہے اُس سے زیادہ نہ لینا چاہیے بس صرف مہر ہی کے عوض میں خلع کرلے۔ اگر مہر سے زیادہ لے لیا تو بھی خیر بے جا تو ہوا لیکن کچھ گناہ نہیں۔ مسئلہ : عورت خلع کرنے پر راضی نہ تھی مرد نے اُس سے زبردستی کی اَور خلع کرنے پر مجبور کیا یعنی مار پیٹ کر دھمکا کر خلع کیا تو طلاق پڑ گئی لیکن مال عورت پر واجب نہیں۔ اگر مرد کے ذمّہ مہر باقی ہوتو وہ بھی معاف نہیں ہوا۔ خلع اور مال کے عوض طلاق کے درمیان فرق : یہ سب باتیں اُس وقت ہیں جب خلع کا لفظ کہا ہو یا یوں کہا ہو کہ ہزار روپے پریا پانچ ہزار کے عوض میں میری جان چھوڑ دے یا یوں کہا میرے مہر کے عوض میں مجھ کو چھوڑ دے اَور اگر اِس طرح نہیں کہا بلکہ طلاق کا لفظ کہا جیسے یوں کہے کہ دو ہزار روپے کے عوض میں مجھے طلاق دے دو تو اِس کو خلع نہ کہیں گے۔ اگر مرد نے اِس مال کے عوض طلاق دے دی تو ایک طلاقِ بائن پڑ گئی اَور اِس میں کوئی حق معاف نہیں ہوا نہ وہ جو مرد کے اُوپر ہیں اَور نہ وہ جو عورت پر ہیں۔ مرد نے اگر مہر نہ دیا تو وہ بھی معاف نہیں ہوا۔ عورت اُس کا دعوی کر سکتی ہے اَور مرد یہ دو ہزار روپے عورت سے لے گا۔ مال کے عوض طلاق کے چند مسائل : مسئلہ : مرد نے کہا میں نے تین ہزار روپے کے عوض میں طلاق دی تو عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے۔ اگر نہ قبول کرے تو نہ پڑے گی اَور اگر قبول کرلے تو ایک طلاقِ بائن پڑ گئی لیکن اگر جگہ بدل جانے کے بعد قبول کیا تو طلاق نہیں پڑی۔ (باقی صفحہ ٥٧ )