ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
بیس کروڑ روپیہ پالے۔ جس شخص کو ایسے بڑے نفع کا موقع ملا پھر اُس نے توجہ نہ کی اُس کے بارے میں یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ وہ پورا اور پکا محروم ہے۔ پہلی اُمتوں کی عمریں زیادہ ہوتی تھیں۔ اِس اُمت کی عمر بہت سے بہت ٧٠۔٨٠ سال ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے یہ اِحسان فرمایا کہ اِن کو شب قدر عطا فرمادی اور ایک شب قدر کی عبادت کا درجہ ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ کردیا۔ محنت کم ہوئی وقت بھی کم لگا اور ثواب میں بڑی بڑی عمروں والی اُمتوں سے بڑھ گئے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و اِنعام ہے کہ اِس اُمت کو سب سے زیادہ نوازا۔ یہ کیسی نالائقی ہے کہ اللہ کی بہت زیادہ نوازش اور داد و دہش ہو اور ہم غفلت میں پڑے سویا کریں۔ رمضان کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہونے دو۔ خصوصاً آخری عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرو اور اِس میں بھی شب قدر میں جاگنے کی بہت زیادہ فکر کرو۔ بچوں کو بھی ترغیب دو۔ شب ِقدر کی دُعا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب پوچھا کہ یا رسول اللہ ۖ شب ِقدر میں کیا دُعا کروں؟ تو آپ ۖ نے یہ دُعا تعلیم فرمادی : اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ''اے اللہ اِس میں شک نہیں کہ آپ معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں لہٰذا مجھے معاف فرمادیجیے۔ '' دیکھیے کیسی دُعا اِرشاد فرمائی۔ نہ زَر مانگنے کو بتایا نہ زمین، نہ دُھن نہ دولت، کیا مانگا جائے؟ معافی! بات اصل یہ ہے کہ آخرت کا معاملہ سب سے زیادہ کٹھن ہے۔ وہاں اللہ کا کام معاف فرمانے سے چلے گا۔ اگر معافی نہ ہوئی اور خدانخواستہ عذاب میں گرفتار ہوئے تو دُنیا کی ہر نعمت اور لذت اور دولت و ثروت بے کار ہوگی۔ اصل شے معافی اور مغفرت ہی ہے ایک حدیث میں ارشاد ہے مَنْ قَامَ لَیْلَةَ الْقَدْرِاِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ۔ (بخاری) جو شخص لیلة القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا رہا اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے اور اِسی حکم میں یہ بھی ہے کہ تلاوت اور ذکر میں مشغول