ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
رکھنے کا الزام لگایا اور اپنے ماننے والوں کو اِتنا برخلاف کیا کہ اگر یہ اَکا بر یہ کہیں اور لکھیں بھی کہ ہم پر یہ جھوٹا اِلزام ہے ،ہمارا تو یہ عقیدہ ہی نہیں ہے تو بھی وہ اُن کا اعتبار نہ کریں اور شک کرتے رہ جائیں۔ حالانکہ اُن کے عقائد صحیح ہونے کی دلیلیں بھی سامنے ہیں مثلاً یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ سارے اہل ِ سنت حنفی مدارس میں الف باء کے قاعدے سے لے کرتفسیر کی آخری کتاب تک حدیث شریف کی تمام ہی کتابیں مشکٰوة شریف اَور صحاح ستہ فقہ کی تمام ہی کتابیں ہدایہ آخرین تک عقائد کی تمام ہی کتابیں پھر فتوؤں کی تمام ہی کتابیں، غرض الف سے لے کر یاء تک جو اہل ِسنت والجماعت (دیوبندی) حضرات کے یہاں کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہی بدعتی علماء (بریلوی حضرات) کے یہاں بھی پڑھائی جاتی ہیں، اِس کو ''درس ِ نظامی'' کہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہر جگہ ہر دومکتب ِ فکر کے علماء اپنے اپنے فتوؤں میں جن کتابوں کے حوالے دیتے ہیں وہ سب ایک ہیں۔ اِس میں آپ کو کہیں اختلاف نظر نہیں آئے گا۔ یہ ہمارا دعوی ہے جو واضح ہے اور مدلل ہے۔ اگر اِس میں ذرا غلط بیانی کا شبہ ہو تو آپ خود خاموشی سے اہل ِ سنت دیوبندی اور اہل ِ بدعت بریلوی مدارس میں تحقیق کر کے دیکھ لیں۔ سب کے یہاں یہی نصاب ملے گا اور سب کے مفتی عالمگیری، شامی ،قاضی خاں، البحرالرائق، فتح القدیر، مبسوط وغیرہ سے ہی فتوؤں کے جواب لکھتے نظر آئیں گے۔ اِختلاف کا پس ِمنظر : پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اختلاف کہاں سے آیا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس اختلاف کے بانی فاضل بریلی اَحمد رضاخاں صاحب ہیں اور چونکہ اُن کی کتابوں کے علاوہ کہیں اختلاف تھا ہی نہیں، اِس لیے اُنہوں نے اپنے انتقال سے پہلے یہ وصیت کر دی تھی کہ ''میرا دین و مذہب جو میری کتب سے ظاہر ہے اُس پر مضبوطی سے قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے۔ '' (وصایا شریف و صیت نمبر ١٤ ص ١٠ مطبوعہ آگرہ پوپی اِنڈیا) یعنی قرآن و حدیث کے احکام تو فرض تھے ہی یہ تو تم سنتے آئے ہو لیکن میرا مذہب کچھ اَور ہے وہ میری کتابوں سے ظاہر ہے۔اِس پر قائم رہنا بلکہ مضبوطی سے قائم رہنا اُس سے بھی بڑا فرض ہے ۔اور وہ دین و مذہب جو اُنہوں نے اپنی کتابوں میں بھرا ہے صرف یہ ہے کہ علماء ِ حق پر الزام ر کھ کر اُنہیں جگہ جگہ کافر کہا ہے۔ اُن کی کتابیں پڑھی جائیں تو اُن میں جگہ جگہ تکفیر ہی دکھائی دے گی یا نئے نئے مسائل جو اُنہوں نے بنائے ہیں