ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
ہیں جلنے والے بھی ہوتے ہیں بِلاوجہ کے دُشمن اور مخالف ہوتے ہیں یہ تنقید کرنی شروع کر دیتے ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بن گئے اُنہوں نے علاقے کا نظام چلایا فوجی نظام بھی سیاسی نظام بھی،دونوں قوتیں(سیاسی اور عسکری) اُن کے ہاتھ میں تھیں۔ سیاسی عہدے میں پھر مخالفت ہوجاتی ہے لوگ اِنکی مخالفت بہت کرتے ہیں اور بہت برا بھلا کہتے ہیں۔جو بھی بزرگ سیاست میں آئے گا اُسے گالیاں بہت پڑیں گی۔ امام اعظم اَور امام ابویوسف اور سیاست : حضرت امام ابوسف رحمة اللہ علیہ کو آج تک مستشرقین برا بھلا کہتے ہیں امام ہیں فقہ کے ،فقہ حنفی کے بڑے امام ہیں حضرت امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ جب حکومت سے کوئی معاملات آئے سیاسی تو اُس کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا جیل میں ہی وفات ہوئی اُن کی زہر دے کر ظالموں نے اُن کو مارا ، فقیہ تھے امام تھے فرمانے لگے کہ یہ زہر ہے میں کیسے پیوں گا خود کشی ہے وہ کہنے لگے پئیں انہوں نے کہا نہیں پئیوں گایہ بوڑھے تھے ضعیف اُن کو گرایا لِٹا کر زبردستی منہ میں ظالموں نے ڈالا تو اِس طرح اُن کی وفات ہوئی۔ تو جو سیاست میں آئے یا سیاسی لوگوں سے واسطہ پڑ جائے ٹکر ہوجائے تو پھر یہ مخالفت ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ سیاسی بزرگان ِدین کا درجہ عنداللہ زیادہ بڑا ہو سکتا ہے : اِسی وجہ سے حضرت والد صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے جو علماء اور جو اَکابر بزرگ سیاست میں آتے ہیں اللہ کے یہاں معلوم ہوتا ہے اُن کا درجہ زیادہ بڑا ہے کیونکہ وہ دین کی خاطر برا بھلا بہت سنتے ہیں گالیاں بہت کھاتے ہیںوغیرہ وغیرہ، جو نہیں آتے سیاست میں اُس کی سب تعریف کرتے ہیں ماشاء اللہ ماشاء اللہ ماشاء اللہ ہر ایک تعریف کرتا ہے،اور جب تعریف کریں گے تو اپنا محاسبہ بھی وہ خود کم کرے گا اَورجب تنقید ہوگی تووہ خود اپنا بھی جائزہ لے گا کہ تنقید صحیح ہورہی ہے یا غلط ہورہی ہے تو اپنی اصلاح بھی اِس کی ہوتی رہتی ہے۔ نفس کو کچلتا رہتا ہے لوگ بھی کچلتے ہیں اَور خود بھی کچلتا ہے۔ امام ابویوسف اور اللہ کادربار : چنانچہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ حضرت امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کا قصہ آتا ہے مستشرقین آج تک اُنہیں برا کہتے ہیں کہ بِک گئے اور حکومت میں شامل ہوگئے اور عہدے قبول کر لیے اور یہ