ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
جواب میں یہی جانتی ہوں کہ سیّد ِ عالم ۖ کے زمانے میں) ہم کوحیض آتا تھا تو روزہ کی قضاء رکھنے کا حکم ہوتا تھا اور نماز کی قضاء پڑھنے کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ۔(جمع الفوائد) نزولِ آیت ِ تیمم : شریعت میں وضوء کی جگہ بعض مجبوری کے مواقع میں جو تیمم رکھا گیا ہے اُمت کے لیے اِس میں بڑی آسانی ہے۔ یہ سن کر آپ کے علم میں اضافہ ہوگا کہ تیمم کے جاری ہونے کا سبب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہی ذات ِ گرامی ہے جس کا مفصل واقعہ وہ خود اپنے الفاظ میں اِس طرح نقل فرماتی تھیںکہ '' ہم رسول اللہ ۖ کے ساتھ ایک سفر میں گئے بہت سے مسلمان ساتھ تھے۔ ہم نے مقام ِ بیداء یا ذات الجیش میں قیام کیا۔ وہاں میرے ہار کی لڑی ٹوٹ گئی لہٰذا اُس کے ڈھونڈ نے کے لیے رسول اللہ ۖ نے (مزید) قیام فرمایا اور آپ کے ساتھ آپ کے ساتھی بھی ٹھہرے رہے ۔رات کا وقت تھا اور پانی کہیں قریب موجود نہیں تھا چونکہ لوگوں کوفجر کی نماز پڑھنے کا خیال تھا اِس لیے بہت فکر مند ہوئے کہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے بلا وضوء نماز کیسے پڑھ سکیں گے۔ یہ سوچ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ'' تم دیکھ رہے ہو کہ عائشہ نے کیا کیا ہے ؟ رسول اللہ ۖ کو اور آپ کے تمام ہمراہیوں کو روک لیا ہے اور حال یہ ہے کہ نہ پانی قریب ہے نہ اپنے پاس ہے۔ ' ' یہ سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور مجھے ڈانٹنا شروع کیا اور نہ جانے کیا کیا کہا اور ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ میری کوکھ میں کچو کے دیتے رہے۔ اُس وقت آنحضرت ۖ میری ران پر سر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ آپ کے بے آرام ہونے کی وجہ سے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے کچوکے دینے پر ذرا حرکت نہ کی۔الحاصل آنحضرت ۖ میری ران پر سر رکھے ہوئے سوتے رہے حتی کہ صبح ہوگئی اور پانی موجود نہ تھا لہٰذا اللہ جل شانہ نے تیمم کی آیت نازل فرمادی اور سب نے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ یہ ماجرا دیکھ کر حضرت اُسید بن حُضیر رضی اللہ عنہ (خوشی میں بھڑک اُٹھے اور کہا اے ابو بکر کے گھر والو (تم ہمیشہ سے برکت والے ہو) یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے اِس کے بعد جب ہم نے اُونٹ کو اُٹھایا جس پر میں (سوار ہوئی ) تھی تو وہ گمشدہ ہار اُس کے نیچے سے مل گیا ۔(جمع الفوائد) ۔(جاری ہے)