ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
ہو۔ اور ثواب کی اُمید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ریا وغیرہ کسی طرح کی خراب نیت سے کھڑا نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی نیت سے مشغولِ عبادت رہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ ''اِحْتِسَابًا'' کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کا یقین کرکے بشاشت ِ قلب سے کھڑا ہو۔ بوجھ سمجھ کر بد دلی کے ساتھ عبادت میں نہ لگے کہ ثواب کا یقین اور اعتقاد جس قدر زیادہ ہوگا اُتنا ہی عبادت میں مشقت کا برداشت کرنا سہل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص قرب ِ الٰہی میں جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے عبادت میں اُس کا اِنہماک زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوجانا ضروری ہے کہ حدیث ِبالا اَور اِس جیسی احادیث میں گناہوں کی معافی کا ذکر ہے۔ علماء کا اِجماع ہے کہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ پس جہاں احادیث میں گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر آتا ہے وہاں صغیرہ گناہ مراد ہوتے ہیں اور صغیرہ گناہ ہی اِنسان سے بہت سرزد ہوتے ہیں۔ عبادت کا ثواب بھی اور ہزاروں گناہوں کی معافی بھی ہوجائے کس قدر نفع عظیم ہے۔ شب ِقدر کی تاریخیں : شب ِقدر کے بارے میں حدیثوں میں وَارد ہوا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ لہٰذا رمضان کی ٢١ ویں ٢٣ ویں ٢٥ ویں ٢٧ ویں ٢٩ ویں رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کا خاص اہتمام کریں۔ خصوصاً ٢٧ ویں شب کو تو ضرور جاگیں کیونکہ اِس دن شب قدر ہونے کی زیادہ اُمید ہوتی ہے۔ شب ِقدر کی تعیین نہ کرنے میں مصالح : علماء کرام نے شب ِقدر کو پوشیدہ رکھنے یعنی مقرر کرکے یوں نہ بتانے کے بارے میں کہ فلاں رات کو شب قدر ہے چند مصلحتیں بتائی ہیں : اوّل یہ کہ اگر تعیین باقی رہتی تو بہت سے کوتاہ طبائع دُوسری راتوں کا اہتمام بالکل ترک کردیتے اور صورت ِموجودہ میں اِس اِحتمال پر کہ شاید آج ہی شب قدر ہو متعدد راتوں میں عبادت کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے۔ دُوسری یہ کہ بہت سے لوگ ہیں کہ معاصی کیے بغیر نہیں رہتے۔ تعیین کی صورت میں اگر باوجود معلوم ہونے کے معصیت کی جرأت کی تو یہ بات سخت اَندیشہ ناک تھی۔ تیسری یہ کہ تعیین کی صورت میں اگر کسی شخص سے وہ رات چھوٹ جاتی تو آئندہ راتوں میں افسردگی کی وجہ سے پھر کسی رات کا جاگنا بشاشت کے ساتھ