ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
کی ہو جس میں کسی ایک بھی عالم نے مخالفت نہ کی ہو یہ وہ محدث(نئی چیز ہے) جسے برا نہیں بتلا یا گیا اَور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان کے مہینے میں قیام(تراویح) کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ بہت اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایسی ایجادہے جو پہلے رائج نہ تھی اور جب شروع ہوئی تو اِس میں کوئی رَدّو قدح نہیں کیا گیا کیونکہ یہ گزر چکی تھی (یعنی جناب ِ رسول اللہ ۖ نے رمضان میں دو دن اِس پر عمل فرمایا تھا ) یہ اِمام شافعی کی گفتگوکا آخری حصہ ہے۔'' اِب جو لوگ کوئی بدعت نیکی کہہ کر ایجاد کرتے ہیں تو آپ اُسے اِس معیار سے جانچ لیا کریں کہ کیا سارے حنفی اہل سنت علماء اِس پر متفق ہیں یا نہیں۔ اگر سب متفق ہوں تو وہ جائز ہوگئی بدعت نہ ہوگی اور اگر اختلاف ہو تو بدعت سمجھیں۔ صرف اُس نیکی پر عمل کریں جس پرسب علماء کا اِتفاق ہو۔ تازہ بدعت : تازہ مثال دیکھ لیجیے کہ اَذان سے پہلے صلوٰة والسلام کا رواج نہ اِسلام کے شروع میں تھا نہ پہلی صدی میںحتی کہ تیرویں صدی گزری اور چودھویں صدی میں آکر یہ تقریباً ١٣٩٥ھ میں شروع کیا گیا اور فوراً ہی اِسے اسلام کا جز بنا لیا حالانکہ ١٣٩٥ھ کے لگ بھگ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ شیعہ اپنی اَذان میں اَذان کے کلمات کے علاوہ جو کچھ بڑھاتے ہیں وہ سب بے اَصل ہے۔ اَذان اُن کے مذہب کے اعتبار سے بھی وہی ہے جو ہماری ہے مگر اُنہیں روکتے روکتے ہم نے خود ایک بدعت شروع کردی جس کا کہیں پہلے ثبوت نہیں ہے جسے بعض بدعتی (بریلوی) علماء نے بھی منع کیا اور اُن کے فتوے بھی چھپے اور جس پر خود بریلی میں بھی پابندی سے عمل نہیں کیا جاتا۔ اگر اَذان کے ساتھ یہ اضافہ شیعوں کے مقابلہ کی نیت سے کیا گیا ہے تو بھی دُرست نہیں ہے کیونکہ اِس سے اَذان کی اُس شکل میں تبدیلی آتی ہے جو جناب ِ رسول اللہ ۖ نے بنا کر دی تھی اور ہر مسلمان پر اُس کی حفاظت ضروری تھی کیونکہ دین مسلمانوں کے پاس رسول اللہ ۖ کی امانت ہے اِسے ویسا ہی رکھنا ضروری ہے جیسا رسالت مآب ۖ اُمت کے سپرد کر کے تشریف لے گئے ہیں۔