ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
نصیب نہ ہوتا اور اَب رمضان کی چند راتیں میسر ہو ہی جاتی ہیں۔ چوتھی یہ کہ جتنی راتیں طلب میں خرچ ہوتی ہیں اُن سب کا مستقل ثواب علیحدہ ملتا ہے۔ پانچویں یہ کہ رمضان کی عبادت میں حق تعالیٰ جل شانہ' ملائکہ پر تفاخر فرماتے ہیں۔ اِس صورت میں تفاخر کا موقع زیادہ ہے کہ باوجود معلوم نہ ہونے کے محض احتمال پر راتوں رات جاگتے ہیں اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور اِن کے علاوہ اور بھی مصالح ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ جھگڑے کی وجہ سے اُس خاص رمضان المبارک میں تعیین بھلادی گئی ہو اور اُس کے بعد مصالح مذکورہ یا دیگر مصالح کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے تعیین چھوڑدی گئی ہو۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف : عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاہُ اللّٰہُ ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُہ مِنْ بَعْدِہ ۔ (مشکٰوة شریف ص ١٨٣ بحوالہ بخاری و مسلم) ''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدس ۖ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرماتے تھے۔ وفات ہونے تک آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ ۖ کے بعد آپ ۖ کی بیویاں اعتکاف کرتی تھیں۔'' تشریح : رمضان المبارک کی ہر گھڑی اور منٹ و سیکنڈ کو غنیمت جاننا چاہیے۔ جتنا ممکن ہو اِس ماہ میں نیک کام کرلو اور ثواب لُوٹ لو۔ پھر رمضان میں بھی آخری دس دن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ رمضان کے آخری دس دن (جن کو ''عشرۂ اَخیرہ ''کہا جاتا ہے) اعتکاف بھی کیا جاتا ہے۔ حضورِ اقدس ۖ ہر سال اِن دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے اور آپ ۖ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں۔ آپ ۖ کی وفات کے بعد بھی آپ ۖ کی بیویوں نے اعتکاف کا اہتمام کیا جیساکہ اُوپر حدیث میں مذکور ہوا۔ یہ ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ زمانۂ نبوت کی عورتیں نیکیاں کمانے کی دُھن میں پیچھے نہ رہتی تھیں۔ اعتکاف میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ اِس میں انسان یکسو ہوکر اپنے اللہ سے لَو لگائے رہتا ہے اور چونکہ رمضان کی آخری دس راتوں میں کوئی نہ کوئی رات شب قدر بھی ہوتی ہے اس لیے اعتکاف کرنے والے کو عموماً وہ بھی نصیب ہوجاتی ہے۔