ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2006 |
اكستان |
|
تک ہلنے نہیں دیا جائے گا جب تک اُس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ : اس نے عمر کہاں گزاری؟ جوانی کہاں برباد کی؟مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ علم پر کتنا عمل کیا؟ (٨) پتنگ بازی کا مشغلہ انسان کو یاد ِخدا سے غافل کردیتا ہے، اس لیے ہر اُس تفریح اور مشغلہ کو باطل قرار دیا گیا جو یادِ حق سے غافل کردے۔ (٩) اسلامی تعلیمات میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، لیکن پتنگ بازی میں اِس کے برعکس ہوتا ہے، جس کی پتنگ کٹتی ہے اُسے غصہ آتا ہے وہ بڑبڑاتا ہے پھر جو کچھ منہ میں آتا ہے وہ کہتا ہے، اسی طرح بسا اوقات بات طول پکڑجاتی ہے تو ہاتھ بھی استعمال ہوجاتے ہیں، جس سے دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے۔ (١٠) حضرت نبی اکرم ۖ نے کنکریاں پھینکنے سے منع کیا ہے، اس ممانعت کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ نہ اِس سے شکار ہوسکتا ہے اور نہ اِس سے دشمن زخمی ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ کنکری کا دانت توڑسکتی ہے یا آنکھ پھوڑ سکتی ہے، اسی طرح پتنگ بازی سے انسانی جسم و جان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، اور نہ ہی ایسا کھیل ہے جس سے جہادی کام کیا جاسکے۔ حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لُدھیانوی سے پتنگ بازی کے بارے میں سوال کیا گیا، اس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ : پتنگ اُڑانا جائز نہیں ہے اس میں مندرجہ ذیل مفاسد ہیں : (١) کبوتر کے پیچھے بھاگنے والے کو حضور ۖ نے شیطان فرمایا ہے عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاٰی رَجُلاً یَتَّبِعُ حَمَامَةً فَقَالَ شَیْطَان یَتَّبِعُ شَیْطَانَةً۔ (ابوداود) ''کبوتر بازی میں انہماک کی وجہ سے امور دینیہ و دنیویہ سے غفلت کا مفسدہ ہے۔'' (٢) مسجد کی جماعت بلکہ خود نماز سے غافل ہوجانا۔ شراب اور جوئے کے حرام ہونے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمائی ہے یَصُدُّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۔ (٣) پتنگ اکثر مکانوں کی چھتوں پر اُڑائے جاتے ہیں، جس سے آس پاس والے گھروں میں بے پردگی ہوتی ہے۔ (باقی صفحہ ٥٧ )