تصنع واسراف اور سادگی
تاریخ کی کتابوں میں وزیر ’’ابن الفرات‘‘ کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ اسراف اور عیش پرستی میں وہ اتنا زیادہ ڈوب گیا تھا کہ اس کے کھانے کے وقت دستر خوان پر تیس سے زائد چمچے سونے کے رکھے جاتے تھے اور وہ ایک چمچہ سے ایک لقمہ سے زیادہ نہ کھاتا تھا، ہر لقمہ پر چمچہ بدلتا تھا۔
عباسی خلیفہ مامون الرشید کے بارے میں آتا ہے کہ بسا اوقات اس کے دستر خوان پر تین سو سے زائد کھانے کی اقسام وانواع ہوتی تھیں وہ سب کو چکھتا تھا، دستر خوان لگانے اور اٹھانے پر دسیوں ملازم مامور تھے۔
خلیفۂ عباسی مقتدر باللہ کی والدہ کا یہ واقعہ تواریخ میں مذکور ہے کہ اس کا جوتا بے حد قیمتی کپڑوں سے بنایا جاتا تھا، وہ کپڑے پہلے سائز کے حساب سے کاٹ لئے جاتے تھے پھر انہیں مشک وعنبر میں ملایا جاتا تھا اور پھر جوتا بنایا جاتا تھا، اوریہ قیمتی جوتا وہ چند روز استعمال کرکے ملازماؤں کو دے دیا کرتی تھی۔
ہارون رشید ایک بار ابراہیم بن مہدی کے ہاں دعوت پر گیا،دستر خوان پر ایک برتن میں مچھلیوں کے بے شمار چھوٹے چھوٹے ٹکڑے آئے، ہارون نے پوچھا کہ باورچی نے ٹکڑے اتنے چھوٹے کیوں کردیئے ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا : امیر المؤمنین! یہ مچھلیوں کی زبانیں ہیں ، ہارون نے قیمت پوچھی تو وہ ہزاروں درہم سے متجاوز تھی، اس پر ہارون نے ہاتھ کھینچ لیا اور کچھ نہ کھایا۔